ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2012 |
اكستان |
|
رَد کیا ہے، اِس کو کیا کہا جائے۔ شاید یہ ذہول ہو۔ (2) پھر یوں بھی دیکھیے کہ حامل ِ صکوک اپنی خریدی ہوئی زمین پر جو کہ اِجارہ پر دی گئی ہے اُجرت لیتا رہا ہے اَور مدت ختم ہونے پر اگر زمین کا مارکیٹ ریٹ بڑھ جائے تو حیلہ کرنے والا مدیر تو سخت مشکل میں پڑجائے کہ پہلے اُجرت دیتا رہا اَور اَب زمین کی قیمت بھی زیادہ دے۔ (3) پھر مولانا مدظلہ نے صکوک ِ اِجارہ کو مضاربت اَور شرکت کے صکوک کے ساتھ خلط کر دیا ہے۔ مضاربت اَور شرکت میں ظاہر ہے کہ رأس المال کی ضمانت نہیں دی جا سکتی اَور نہ ہی نفع کی ضمانت دی جا سکتی ہے لیکن صکوک ِ اِجارہ کے حاملین کو یہ ضمانت دینا کہ بائع اِن صکوک کے پیچھے جو جائیداد ہے اُس کو وہ سابقہ قیمت پر خرید لے گا کچھ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ : (i) جب ہم نے حیلہ کر کے صورت کو قرض اَور سود سے نکال لیا اَور اُس کو بیع کی صورت دے دی تو اَب اِس کو پھر قرض ہی سمجھنا اَور قرض کے دائرے سے نکالنے کے لیے واپس خرید میں مارکیٹ ریٹ پر زور دینا بے وجہ ہے۔ (ii) پھر مارکیٹ ریٹ کے علاوہ ایک شق یہ بھی ہے کہ حامل صک اَور مصدر صک جس قیمت پر راضی ہوجائیں وہ بھی اِختیار کی جا سکتی ہے اِس شق کے ہوتے ہوئے صکوک جاری کرنے والوں کا کام آسان ہے کیونکہ وہ سابقہ قیمت پر یا اِس کے لگ بھگ قیمت پراِصرار کر سکتے ہیں۔ (4) پیچھے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ شیخ محمد علی تسخیری نے سابقہ قیمت پر واپس خریداری کے جواز کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِسی طرح کچھ اَور حضرات بھی اِس شرط کے جواز کے قائل ہیں جیسا کہ حامد بن حسن نے اپنی کتاب صکوک الاجارہ میں ذکر کیا ہے۔ اِختلاف ِ رائے کی صورت میں ظاہر ہے کہ صکوک والے مولانا مدظلہ کی رائے سے اِختلاف رکھنے والوں کی رائے کو لے سکتے ہیں۔ اِسی طرح شیخ عبدالستار ،اَبوغدہ اَور ڈاکٹر حسین حامد حسان نے بھی صکوک کے منشور میں قیمت ِاِسمیہ پر واپس خریداری کی شرط کے باوجود صکوک کے جواز کو باقی رکھا ہے۔ وماعلینا الاالبلاغ