ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
''ملتان میں پیر شمس کے پیرو کار جو اَب بھی اِسماعیلی کہلاتے ہیں وہ نزاری اِسماعیلی اِمام آغاخان کے پیرو کار ہیں ،یہ لوگ زیاد ہ تر صراف اَور زَرگر ہیں اَور تجارت میں خاصا اَثرو رُسوخ رکھتے ہیں۔ شیخ سلاطین بخش مرحوم جو کئی برس پہلے وفات پا چکے ہیں اِمام آغاخان کے وزیر کے منصب پر فائز تھے ،یہ آغاخانی اِسماعیلی بہت عرصہ سے ملتان میں آباد ہیں خصوصًا اَندرون پاک گیٹ میں واقع صرافہ بازار میں کاروبار کرتے ہیں۔ '' ١ ایک بات خصوصی طور پر قابل ِذکر اَورلائق ِتوجہ ہے کہ شاہ شمس سبز واری کے حالات اہلِ سنت کے کسی بھی مستند تذکرہ میں موجود نہیں ہیں جو بجائے خود اِس بات کا قرینہ ہے کہ اِن کا تعلق اہلِ سنت سے نہیں ہے۔ اِس کے برعکس اِن کا تذکرہ قاضی نور اللہ شوستری (م : ٦١٠ھ/١٢١٤۔ ١٢١٣ئ)کی کتاب ''مجالس المؤمنین'' میں ہے جو شیعہ اَکابر کا تذکرہ ہے ۔اِس کے علاوہ اِسماعیلی مؤرخ علی نیارا نے اِسماعیلی تاریخ پر ایک ضخیم کتاب ''نورِ مبین'' میں شاہ شمس سبز واری کا مفصل تذکرہ لکھا ہے۔ شیخ اِکرام نے خوجوں کی تاریخ '' بلاغ المبین'' کا حوالہ نقل کیا ہے جس میں اِن کا تذکرہ ہے۔ ١٩٧٧ء میں تاج الدین صادق علی نے اِسماعیلیوں کی ایک جامع تاریخ ''اِسماعیلیہ تھورو ہسٹری'' مرتب کی ہے اِس میں شاہ شمس سبزواری پر ایک باب مختص ہے۔اِس کے علاوہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ڈاکٹر رُوبینہ ترین صاحبہ صدر شعبہ اُردو کی نہایت محققانہ کتاب ''شاہ شمس سبز واری سوانح وآثار (تاریخی تناظر میں) '' ٢٠٠٧ء میں شائع ہوئی جس میں شاہ شمس سبز واری سے متعلق جامع معلومات سامنے آئی ہیں جو اِن کو اِسماعیلی داعی کے طور پر سامنے لاتی ہے۔ آج کل شاہ شمس سبز واری کا مزار اِثنا عشری حضرات کے بڑے مرکز کی حیثیت سے معروف ہے مگر برطانوی عہد ِحکومت میں اِسماعیلیوں کے اُس وقت کے ''اِمام''آغاخان سوم نے اِس مزار کی متولیت کا دعوی دائر کیا تھا مگر عدالتی چارہ جوئی کار گر نہ ہو سکی تاہم اِس مقبرہ کے دَرو دِیوار پر اَور بہت سی ١ شاہ شمس سبز واری سوانح و آثار ص ٦٠