ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
اِن مگر مچھوں نے عافیہ صدیقی ،ڈرون زدہ معصوم اَفغانی اَور قبائلی، عراق میں اَمریکی مظالم، فلسطین میں اِسرائیلی بربریت، برما میں بے قصور مسلمانوں کا قتل ِعام، کشمیرمیں بھارتی جبر، ہندوستان میں مسلم کُش ہنگامے،پاکستان میں لاپتہ اَفراد کی بے کسی اَور لاچاری جیسے رُونما ہونے والے سانحوں پر کیوں آنکھیں اَور کان بند کر رکھے ہیں۔ یہ سوالات دُنیا کے سیاسی نقشے پر گہری نظر رکھنے والے ہر باشعور اَور اِنصاف پسند اِنسان کے ضمیر کی آواز ہیں جن کا یا تو جواب دینا ہوگا یا بدلہ ! اَخبارات و جرائد میں اَب تک بہت سے تبصرے اِس قضیہ پر آچکے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اِتنا وقت گزرنے کے بعد اپنی طرف سے اِس پر مزید کچھ لکھنا زیادہ مفید نہ ہوگا اِس لیے ہم صرف ١٦ اکتوبر کو روزنامہ اُمت میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کی نقل پر اِکتفا کرتے ہیں جس سے قارئین ِکرام پر معاملہ کی اَصل حقیقت آشکارہ ہوجائے گی۔ ''ملالہ یوسف زئی کو علاج کے لیے برطانیہ روانہ کردیا گیا ہے جبکہ والد، والدہ اَور چھوٹے بھائی کے بھی ساتھ جانے کی اِطلاع ہے تاہم پاکستان میں موجود دو بھائی اَور دیگر رشتہ دار نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے ہیں اَور اُنہوں نے اَپنے ٹیلیفون بھی بند کر رکھے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملالہ پر حملے کی آڑ میں بعض اَین جی اَوز نے اِسلامی شعائر پر تنقید اَور دینی مدارس اَور طالبان کے خلاف نازیبا کلمات اِستعمال کر کے پورے واقعہ کو متنازعہ بنادیا ہے جس کی وجہ سے لوگ اَب ملاملہ یوسف زئی کے والد ضیاء الدین کو اِس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں کہ اُنہوں نے اَپنی بیٹی کو اپنے مقاصد کے لیے اِستعمال کیا جس کا نقصان پورے معاشرے کو اُٹھانا پڑ ا ہے۔ ذرائع کے مطابق ضیاء الدین یوسف زئی کے والد کا تعلق ضلع شانگلہ کے علاقے کانگڑہ شاہ پور سے ہے اَور اُن کے دَادا والی ٔسوات کی عدالت میں قاضی تھے۔