ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
اَور اگر بالفرض آپ کے نزدیک اِس کا یہی ایک حل ہے کہ اِس قانون کو ختم کردیا جائے توپھر جتنے بھی قوانین کاغلط اِستعمال ہوتا ہے اُن سب کو ختم کرنا پڑے گا مثلًا چوری ،زنا، ڈاکہ اَور زمین کے جھوٹے مقدمے درج کرائے جاتے ہیں اَور غریب طبقہ کااِستحصال کیاجاتا ہے اَور ماوَرائے قانون یہ سب کچھ ہوتا ہے پھر اُن قوانین کو بھی ختم کردیاجائے۔ اَب ذمہ داری پارلیمنٹ پر ہے کہ وہ سرکارِ دو عالم ۖ کی ذات ِ مبارکہ کی توہین کو دہشت گردی کے زُمرے میں لائے۔ عدلیہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ جیسے خود کش حملہ کرنے والا، دھماکہ کرنے والا، قتل کرنے والا، ڈاکہ ڈالنے والا دہشت گرد ہے ایسے ہی توہین ِ رسالت کااِرتکاب کرنے والا دہشت گرد ہے ،عدالت توہین ِ رسالت کا اِرتکاب کرنے والے کو دہشت گرد قرار دے نہ یہ کہ توہین ِ رسالت کے مرتکب کو قتل کر کے ناموس ِ رسالت پر فدا ہونے والے کو دہشت گرد قرار دے۔ اِس تفصیل کو جاننے کے بعد سوچنے کی بات یہ ہے کہ شیریں رحمن نے قانون تحفظ ناموس ِ رسالت میں ترمیم کا بل پیش کر کے کسی دہشت گردی کا اِرتکاب تو نہیں کیاتھا ؟ جس سے سارے مسلمان پریشانی میں مبتلا ہوئے۔ اَور اِسی طرح عاصمہ جہانگیر نے سرکارِ دو عالم ۖ کی توہین کر کے دہشت گردی نہیں پھیلائی تھی ؟ جس کے نتیجہ میں پارلیمنٹ کے اَرکان نے قانون تحفظ ِ ناموس ِ رسالت کا بل پاس کر کے قانون بنایا تھا اَور وہ اِس پر قائم ہے ،اُس نے ابھی تک توبہ نہیں کی۔ ایسے ہی پچھلے دنوںجب تحفظ ِ ناموسِ رسالت کے لیے ملک گیر ہڑتال کی گئی تو عاصمہ جہانگیر نے یہ بیان دیا کہ ملا ڈنڈے کے زور پر تو ہڑتال کرا سکتاہے لیکن دِل نہیں جیت سکتا اَور اُس نے سڑکوں پر دہشت گردی پھیلائی ہے ۔کیا یہ بیان دہشت گردی نہیں ؟ یہ دونوں مستورات جوکہ عملًا مکشوفات ہیں اِس قانون کو ختم کرانے کی سعی لاحاصل کر کے دہشت گردی تو نہیں پھیلا رہیں ؟ ایسے ہی اِن کو مملکت میں اَعلیٰ مناصب دے کر ملک کے سربراہان دہشت گردی کرنے والوں کی سرپرستی تو نہیں کر رہے ؟