ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
''لاجرم داعیہ ظہور دین حق و قصد اِنتقام اَز کفر فجرہ برہم زدن دولت ِکسری وقیصر را آشیانہ خود گردانید تاچوں ایں ہر دو دولت برہم خورد اعظم اَدیان موجودہ اَشہر آنہا برہم خوردہ باشد وچوں سطوت اِسلام بجائے سطوت اِیں دولت نشیند سائر اَدیان خود بخود پائمالِ شوکت اِسلام شوندمانند پائمال بودند آنہا بایں دوملت۔ '' اَور اَحادیث میں تو بہت صاف پیشین گوئی ہے : وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَتَفْتَحُنَّ کُنُوْزَ کِسْرٰی وَقَیْصَرَ ثُمَّ لَتُنْفِقُنَّھََا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔( الحدیث ) پس حضور ۖ کے خلیفہ ٔ راشد کے فرائض بلکہ اَوصافِ اِمتیازیہ میں سے یہ بات ہے کہ اِن کے ہاتھ پرپیشنگوئیاں پوری ہوںاَور مقصد ِبعثت کی تکمیل ہو چنانچہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی نہایت قلیل مدت کی خلافت میں جہاں اَور بہت سے کام کیے وہاں یہ بھی کیا کہ اِن دونوں سلطنتوں کے فتح کی بنیاد ڈال گئے۔ اِبتداء اُن کے دست ِمبارک سے ہوئی اَور اِنتہا حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے دست ِ حق پرست پر۔ گلشن اِسلام میں جو بہار آئی، یہ پودحضرت صدیق رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھ کی لگائی ہوئی تھی۔ شکر فیض تو چمن چوں کند اے اَبر بہار کہ اگر خار دگر گل ہمہ آوردہ تست فتنہ اِرتداد کے فرو کرنے کے بعد اپنی خلافت کے دُوسرے سال یعنی ١٢ھ میں آپ نے اِسلامی فوجوں کو بجانب ِعراق روانہ کیا۔ اِبتداء ً حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اِس کام پر مقرر کیا پھر آپ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اِن کی مدد کے لیے بھیجا۔ عراق میں کئی لڑائیاں اِیرانیوں سے ہوئیں اَور شہر حیرہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا وہاں کے لوگوں نے اَمان مانگی اَور جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اِسلامی فوجیں عراق میں مصروف کارزار تھیں،حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دِل میں