ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
جبکہ بھارتی سپیکر نے اُردو میں خطاب کر کے حاضرین کو حیرت میں ڈال دیا۔ میڈیا نے فہمیدہ مرزا کو اَنگریزی میںتقریر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جس پر سپیکر نے تقریر تیار کرنے والے سٹاف پر برہمی کا اِظہار کرتے ہوئے وضاحت طلب کر لی۔ '' اِس خبر نے پیدا ہونے والی اُمید کی کرن کو نا صرف مٹا دیا بلکہ اپنے مقتدر قومی اِدارے سینٹ کی قرارداد کا بر سرِ عام غیر ملکیوں کے سامنے تمسخر بھی اُڑا دیا۔اَصل بات یہ ہے کہ ہمارے اَربابِ حل و عقد ہمارے سیاسی لیڈر اَور بیورو کریٹس جس ماحول میں پلتے بڑھتے اَور تعلیم و تربیت حاصل کرتے ہیں وہ اہلِ مغرب سے مرعوبیت کا ماحول ہوتا ہے اِس ماحول کے ہوتے ہوئے اُن سے یہ اُمید لگانا بے معنٰی ہے کہ وہ مُلک و ملّت اَور قوم و وطن کے مفاد میں آزادانہ فیصلے کر سکتے ہیں کیونکہ اُن کے غلامانہ ذہنوں میں اَنگریزیت اِس قدر سرایت کر چکی ہے کہ اُن کی ثقافت اُن کا کلچر اُن کی بود وباش اُن کا رہن سہن اَنگریزیت کے تابع ہو کر رہ گیا ہے وہ نام سے تو ضرور مسلمان معلوم ہوتے ہیں لیکن سوچ اَور فکر کے لحاظ سے مکمل اَنگریز بن چکے ہیں ۔ کس قدر اَفسوس ناک پہلو ہے کہ ایک ہندو عورت جو نہ ہمارے ملک وملّت کی خیر خواہ کہلائی جاسکتی ہے اَور نہ ہماری قوم و وطن سے کوئی تعلق رکھتی ہے وہاں کے ہندؤوں کی بڑی تعداد مسلمان اَور اُن کی زبان (اُرود) سے اِنتہائی تعصب کا معاملہ کرتے ہوئے اِس کو اپنے ملک سے مٹانے کے دَرپے ہیں ۔اُن کی سپیکر تو ہمارے ملک میں آکر ہماری علاقائی اَور قومی زبان (اُردو) میں خطاب کرتی ہے اَور اُس کی ہم منصب ہماری مسلمان عورت اپنی قومی و علاقائی زبان چھوڑ کر اَنگریزی میں خطاب کرتی ہے۔اگر چہ خبر کے مطابق سپیکر نے تقریر کرنے والے سٹاف پر برہمی کا اِظہار کرتے ہوئے وضاحت طلب کی ہے مگر فہمیدہ مرزا کا یہ عمل ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے''کے مترادف ہے جو گری ہوئی دستار کی گرہیں نہیں جوڑ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مسلم اَقوام اپنے آپ کو آزاد سمجھتی ہیں اَور آزادی کے ساتھ اپنے تمام اُمور کو اَنجام دینا چاہتی ہیں اِسی لیے وہ اپنے اپنے ملک میں اپنی قومی زبان کو فروغ دے رہی ہیں اَور