ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
تین باتیں ہیں ۔تو یہ نبی عوام میں محنت کرتے تھے صحابہ کرام کے بارے میں آپ پڑھتے ہیں کچھ صحابہ متخصص تھے تجوید میں کچھ متخصص تھے فقہ میں مختلف علوم میں صحابہ لیکن سو فیصد صحابہ متخصص فی الدعوت تھے کہ وہ جہاں بھی گئے اُنہوں نے اللہ کی طرف بُلایا اُن کی زندگیاں اُن کی دعوت سے جہان میں ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے اِیمان کی طرف آئے ۔ تو دعوت کا طرز ہر دور میں الگ ہوتا ہے ذہنی سطح اَلگ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر صدی میں مجدد بھیج دیا ورنہ ایک مجدد کافی تھا۔ ہر صدی کے تقاضے الگ ضرورتیں الگ ذہنی سطحیں الگ تو اِس لیے ہر صدی میں ضرورت ایسے لوگوں کی ہوگی جو اُس دَور کے اِعتبار سے تشریح کریں گے طریقہ بھی بتلائیں گے ۔ جس طرح ایک تاجر ہے وہ اپنی غلطی نکالتا ہے اگر اُس کی دُکان نہیں چلتی مثلاً کسی چیز کی اُس نے دُکان لگائی تو وہ یہ نہیں کہتا کہ لوگ ایسے ہیں نالائق ہیں نہیں آتے ہم بھی نہیں بلاتے نہ آئیں ہمارا کیا جاتا ہے نہیںبلکہ .......دُکان کی ڈیکوریشن اَور اُس کی سجاوٹ شاید ایک عام آدمی کو متوجہ نہیں کرتی پر کشش نہیں ہے تو ڈیکوریشن بدلتا ہے کبھی سوچتا ہے یہ مال یہاں نہیں چلے گا فلاں مال چلے گا وہ مال بدل دیتا ہے کبھی جگہ ہی بدل دیتا ہے پھر بھی نہیں چلے تو پھر محنت کرتا ہے کئی طرح کے طریقے اِختیار کرتا ہے پرنٹ میڈیا اِلیکٹرونک میڈیا اَور یہاں تک کہ چل پڑتی ہے ۔ جس طرح ایک تاجر جو ہے وہ اَپنا قصور نکالتا ہے کہ بھئی لوگ آ کیوں نہیں رہے لینے کے لیے حالانکہ اِتنا اچھا مال رکھا ہوا ہے۔ اِسی طرح ہم نے اَپنا قصور نکالنا ہے ، لوگ بے طلب ہیں یہ نہیں بلکہ کیوں کشش ہمارے اَندر نہیں ہے۔ جب ہم اَپنا قصور نکالیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کریں گے بتائیں گے کہ کس طرح لوگوں سے بات کرنی ہے کس اَسلوب سے بات کر نی ہے کس اَنداز سے لوگوں کو سمجھانا ہے تو ہمیں اَپنا قصور نکالنا ہے۔ داعی ..........کی نا شائستگی غیر مہذبانہ اَنداز بد اَخلاقی برداشت کر لیتا ہے جس طرح تاجر کو اَپنا مال بیچنا ہو تا ہے اپنی چیز دُوسروں تک پہنچانی ہوتی ہے تو وہ نظر اَنداز کر دیتا ہے اَور پھر وہ اَپنی بات ایسے طریقے سے اُس کے ذہن نشین کر تا ہے تو یہ چیز بھی ہمیں