ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
خدا کے فضل وکرم سے اِس بیعتِ مبارکہ کے آثار اُسی دِن سے میں اپنے میں پانے لگا رُویائے صالحہ کا سلسلہ بھی جب ہی سے شروع ہو گیا۔ چونکہ اُس زمانہ میں سفرِ حجاز کے لیے صرف بندر چاٹ گام (بنگال) کھلا ہوا تھا سواحل وغیرہ پر طاعون کی زور شور کی بناء پر قر نطینیوں کی بھی سختیاں تھیں اِس لیے بہت زیادہ زمانہ مکہ معظمہ تک پہنچنے میں صرف ہو گیا یہاں تک کہ آخری ماہ ذیقعدہ ١٣١٦ھ میں تین ماہ متواتر سفر میں گزارنے پر مکہ معظمہ پہنچتا ہوا بعد اَز اِنتظام اِقامت ضروریاتِ مناسک حضرت سیّد العارفین قطب العالم جناب حاجی اِمداداللہ صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کی بار گاہ میں شرفیابی کی نعمت حاصل ہوئی۔ حضرت حاجی صاحب موصوف سے مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ کا بیعت فرمانے کے بعد اِر شاد ِتلقین کو حضرت رحمةاللہ علیہ پر محمول فرما دینا مع دیگر پیغا مات ذکر کیا۔ حضرت حاجی اِمداد اللہ صاحب رحمةاللہ علیہ نے نہایت شفقت فرمائی اَور پاس اِنفاس کی تلقین کرنے کے بعد اِرشاد فرمایا کہ ہر روز بوقت ِصبح ہمارے یہاں حاضر ہواکرو اَور یہی عمل کیا کرو۔ اُس زمانہ میں روزانہ تقریبًا آٹھ بجے صبح سے دَس گیارہ بجے تک اُذنِ عام ہو تا تھا ۔مولانا محب اللہ صاحب مرحوم مثنوی شریف پڑھا کرتے تھے چنانچہ حسب ِاِرشاد رَوزانہ حاضر ہوتا رہا۔ حج و عمرہ کے مناسک سے فارغ ہونے پر اَواخر ذی الحجہ ١٣٤١ھ میں بوقت ِروانگی قافلہ مدینہ منورہ بعد اَز ظہر حاضر ہوا اگر چہ وہ وقت عام اِجازت کا نہ تھا مگر حضرت رحمةاللہ علیہ نے با رگاہ میں بُلا لیا باجود یکہ اُس وقت بہت نحیف تھے پلنگ پر لیٹے ہی رہا کرتے تھے پہنچنے پر بیٹھ گئے اَورغایت ِشفقت سے پاس بُلا کر میرے اَور بھائی سیّد اَحمد صاحب کے سر پر اپنے دونوں ہاتھوں کوپھیر کر فرمایا کہ تم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا چونکہ اِس اِرشاد پر میں نے سکوت کیا تھا فرمایا کہ کہو میں نے قبول کیا۔ حسب ِاِر شاد دونوں نے یہ کلمات کہے وہاں سے رُخصت ہو کر تبریز کی جگہ (بیرونِ مکہ معظمہ جہاں پر قافلہ روانگی کے وقت جمع ہوا کرتا تھا) پہنچا وہی تین دِن گزرے تھے کہ منزل رابع کی شب میں جنابِ سرور کائنات علیہ الصلوة والسلام کی زیارت