ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
تحفظ ناموسِ رسالت محاذ پر جدو جہد اَور شاندار کامیابی ( جناب مولانا قاری محمد حنیف صاحب جالندھری ،ناظمِ اَعلیٰ وفاق المدارس العربیہ ) تحریک تحفظ ِناموسِ رسالت کی شاندار کامیابی اَور وطن ِعزیز کے غیور مسلمانوں کو جو فتح ِمبین نصیب ہوئی اُس پر اللہ رب العزت کا جس قدر شکر اَدا کیا جائے کم ہے۔ اِس تحریک کی کامیابی پر پاکستان کی پوری قوم مبارکبادی کی مستحق ہے بالخصوص عالمی مجلس تحفظِ ختم ِنبوت اَور تحریک ِناموسِ رسالت کے قائدین و کارکنان اَور اِس تحریک میں شامل تمام جماعتیں، اُن جماعتوں کے تمام قائدین و کارکنان اِس تحریک میں اِنفرادی، اِجتماعی اَور جماعتی حیثیت سے حصہ لینے والے تمام عاشقانِ مصطفی لائق ِصدتحسین ہیں جن کی شبانہ روز محنت کے نتیجہ میں وطن ِعزیز ایک بڑے بحران سے بچ گیااَور حکومت کو ناموسِ رسالت کے قانون میں ترمیم نہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ اگر اِس موقع پر حکومت بالخصوص وزیراعظم سیّد یوسف رضا صاحب گیلانی اَور وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اَعوان صاحب کے کردار کی تعریف نہ کی جائے تو یقینا نااِنصافی ہوگی جنہوں نے عوامی اِضطراب کو محسوس کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کرنے میں کلیدی کردار اَدا کیا جس سے وطن ِعزیز کے مستقبل پریقینا مثبت اَور دُوررَس اَثرات مرتب ہوں گے۔ حالیہ تحریک ِناموسِ رسالت کاآغاز ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ کی ایک خاتون آسیہ مسیح کی طرف سے شانِ اَقدس میں گستاخی کے بعد ہوا۔ آسیہ مسیح نے شانِ اَقدس میں جو ہرزہ سرائی کی اُسے نوکِ قلم پر نہیں لایا جاسکتا۔ اُس نے گاؤں کی پنجائیت اَورپھر سیشن جج کی عدالت میں اپنے جرم کا اِعتراف کیا جس کے نتیجہ میں اُسے سزا سنادی گئی۔ اُس کے ورثاء کواگر اِس فیصلے پر اطمینان نہیں تھا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہائی کورٹ سے رُجوع کیا جاتا، اگر ہائی کورٹ بھی یہ فیصلہ برقرار رکھتی تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاتی اَور اگر سپریم کورٹ سے بھی موت کی سزا سُنادی جاتی تب صدرِ مملکت سے معافی درخواست کی جاتی لیکن سابق گورنر پنجاب نے اِس عدالتی پروسیس کو ہائی جیک کرتے ہوئے درمیان سے ہی اِس معاملے کو اُچک لیا اَو وہ جیل جا پہنچے جہاں