ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
گھر میں جو کچھ موجود ہوتا مہمان کے سامنے لا کر رکھ دیا جاتا۔ عالم ، جاہل ، شہری، دیہاتی غرض کہ ہر قسم کے مہمان آتے آپ نہایت خندہ پیشانی سے اُن کا خیر مقدم کرتے اَور ساتھ بٹھلا کر کھانا کھلاتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مہمان آیا جس کے کپڑوں میں سے بھی بدبو آتی تھی اَور بے شمار جوئیں بھی تھیں، مہمان خانہ میں کوئی پاس نہ پھٹکنے دیتا لیکن حضرت نے اُس کو اپنے برابر بٹھلا کر کھانا کھلایا اَور منہ ہاتھ صاف کر نے کے لیے اپنا تولیہ عنایت فرمایا۔ چنانچہ حضرت کے کپڑوں پر چند جوئیں بھی چڑھ گئیں جن کو آپ نے اَندر تشریف لے جا کر صاف کرایا۔ کمیونسٹ لیڈر ڈاکٹر محمد اَشرف صاحب تحریر فرماتے ہیں : ''دیو بند کے قیام کی غالباً چوتھی شام تھی کہ میں اپنے بستر پر دراز تھارات کے دس بج چکے تھے گھومنے پھرنے کی وجہ سے کچھ تھکن زیادہ تھی چنانچہ لیمپ گل کیا اَور سونے لگادروازہ کھلاتھا مجھے کچھ غنودگی تھی میں نے ایک ہاتھ اپنے ٹخنے پر محسوس کیا پھر دونوں ہاتھوں سے کسی نے میرے پاؤں دبانا شروع کر دیے میں چوکنا ہوگیا دیکھتا ہوں کہ مولانا بہ نفسِ نفیس اِس گنہگار کے پاؤں دبانے میں مصروف تھے الخ۔''( شیخ الاسلام نمبر ص ٢٩ ) غرض کہ اِس قسم کے متعدد واقعات مہمانوں کے ساتھ پیش آتے رہتے تھے۔ دستر خوان اِتنا وسیع تھا کہ دس بیس ہی نہیں بلکہ دو دو سو اَور تین تین سو مہمان ہوجاتے تھے کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ آپ کے درِ دولت سے کوئی مہمان بھوکا آیا ہو، اگر کوئی مہمان کھانے کے وقت دستر خوان پر نہ ہوتا تو تلاش کراتے تھے۔ آپ ہمیشہ مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے اَور آخر تک (سنت کے مطابق) کھاتے رہتے تھے اگرچہ مشکل سے ایک یا دو چپاتی کھاتے ہوں گے، اپنے کھانے اَور مہمانوں کے کھانے میں یکسانیت رکھتے تھے ، اگرکبھی طبیعت ناسازہونے کی وجہ سے پرہیزی کھانابکری کاکوشت وغیرہ تیارہوتا تو اُس کو بھی مہمانوں کے سالن میں ملا دیتے ۔ مئی ١٩٥٧ء میں جب آپ پر لُوکا حملہ ہوااَور کئی دن پرہیزی کھانا کھاتے ہوگئے تو ایک دِن فرمایاکہ آج تو پرہیز توڑیں گے مہمانوں کے ساتھ کھائے ہو ئے کئی دِن ہو گئے ہیں۔ میں جہاں ہوں تیرے خیال میںہوں تو جہاںہے میری نگاہ میں ہے