ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
زہری لکھتے ہیں کہ اِمام حسن رضی اللہ عنہ نے اہلِ عراق سے بیعت لیتے وقت یہ شرط کر لی تھی کہ ''تم کوپورے طور سے میری اطاعت کرنی ہوگی یعنی جس سے میں لڑوں گا اُس سے لڑنا ہوگااَور جس سے صلح کروں گا اُس سے صلح کرنی پڑے گی۔ ''اِس شرط سے عراقی اُسی وقت کھٹک گئے تھے کہ آپ آئندہ جنگ وجدال ختم کردیں گے چنانچہ اُسی وقت اُن لوگوں نے آپس میں کہا تھا کہ ہمارے گون کے آدمی نہیں اَور لڑنا نہیں چاہتے اِس کے چند روزبعد آپ کو زخمی کر دیاگیا۔ (ابن عساکر ج ٤ ص ٢٢٠) حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں پر بھی یہ خیال ظاہر فرما دیا تھا، ابن جعفر کا بیا ن ہے کہ صلح سے قبل میں ایک دِن حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا جب چلنے کے اِرادے سے اُٹھا تو اُنہوں نے میرا دامن کھیچ کر بٹھالیا اَور کہا میں نے ایک رائے قائم کی ہے اُمید ہے کہ تم بھی اُس سے اِتفاق کرو گے ۔ ابن جعفر نے پوچھا کون سی رائے ہے ؟ فرمایا میں خلافت سے دستبردار ہو کر مدینہ جانا چاہتا ہوںکیونکہ فتنہ برابر بڑھتا جاتا ہے ،خون کی ندیاں بہ چکی ہیں ،عزیزکو عزیز کا پاس نہیں ہے،قطع رحم کی گرم بازاری ہے ،راستے خطرناک ہو رہے ہیں ،سرحدیں بے کارہو گئی ہیں۔ابن جعفر نے جواب دیاخدا آپ کو اُمت ِمحمدی کی خیرخواہی کے صلہ میں جزائے خیردے،اِس کے بعد آپ نے حسین کے سامنے یہ رائے ظاہر کی،اُنہوں نے کہا خدا راعلی کو قبر میں جھٹلاکرمعاویہ کی سچائی کا اعتراف نہ کیجئے،آپ نے یہ سن کر حسین کو ڈانٹاکہ تم شروع سے آخر تک برابر میری رائے کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہو،خدا کی قسم! میں طے کرچکا ہوں کہ تم کو فاطمہ کے گھر میں بند کرکے اپنا اِرادہ پورا کروں گا،حسین رضی اللہ عنہ نے بھائی کا لہجہ درشت دیکھا تو عرض کیا ،آپ علی رضی اللہ عنہ کی اَولاد اکبر اَور میرے خلیفہ ہیں ،جورائے آپ کی ہوگی وہی میری ہوگی ،جیسا مناسب فرمائیے کیجئے ،اِس کے بعد آپ نے دستبرداری کا اِعلان کیا ۔( ابن عساکر ج ٤ ص ٢٢١ و ٢٢٢) اِن واقعات سے معلوم ہوگیا کہ خلافت سے دستبرداری میں فوج کی کمزوری وغیرہ کا چنداں سوال نہ تھا بلکہ چونکہ آپ کو اِس کا یقین ہوگیا تھا کہ بغیر ہزاروں مسلمانوں کے خاک و خون میں تڑپے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا اَور جنگ ِ جمل سے لے کر برابر مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہتی چلی آرہی ہیں اِس لیے آپ نے اِسے روکنے کے لیے خلافت کو خیر باد کہہ کر مدینہ کی عزلت نشینی اِختیار فرمائی ، فَجَزَاہُ اللّٰہُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ الْجَزَائِ ۔(جاری ہے)