ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
قسط : ٥ حضرت اِمام حسن بن علی رضی اللہ عنہما ( حضرت مولانا شاہ معین الدین صاحب ندوی ) آپ نے خلافت فوج کی کمزوری سے چھوڑی یامسلمانوں کی خونریزی سے بچنے کے لیے : بعض ظاہر بینو ں کو یہ غلط فہمی پیداہوتی ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کی کمزوری سے مجبور ہوکر اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی،اَور کچھ واقعات بھی اِس خیال کی تائید میں مل جاتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ نے یہ جلیل القدر منصب محض مسلمانوں کی خونریزی سے بچنے کے لیے ترک کیا ۔گویہ صحیح ہے کہ جس فوج کولے کر آپ مقابلہ کے لیے نکلے تھے اُس میں کچھ منافق بھی تھے جنہوں نے عین موقع پر کمزوری دِکھائی مگر اُسی فوج میں بہت سے خارجی العقیدہ بھی تھے جو آپ کی حمایت میں اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑنا فرضِ عین سمجھتے تھے چنانچہ جب اُنہوں نے مصالحت کا رنگ دیکھاتو آپ کی تکفیر کرنے لگے ۔ ١ خود عراق میں چالیس بیالیس ہزارکوفی جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ،آپ کے ایک اِشارہ پر سر کٹانے کے لیے تیا رتھے ۔ ٢ عراق تو عراق سارا عرب آپ کے قبضہ میں تھا ،مصالحت وغیرہ کے بعد ایک مرتبہ بعض لوگوں نے آپ کو خلافت کی خواہش سے متہم کیا ،آپ نے فرمایا کہ ''عرب کے سر میرے قبضہ میں تھے جس سے میں صلح کرتا اُس سے وہ بھی کرتے اَور جس سے میں جنگ کرتا اُس سے وہ بھی لڑتے لیکن اِس کے باوجود میں نے خلافت کو خاصة للہ اَور اُمت ِمحمدی کی خونریزی سے بچنے کے لیے چھوڑا۔'' ٣ خودآپ کی فوج میں اُن چند منافقوں کے علاوہ جنہوں نے بعض مخفی اَثرات سے عین وقت پردھوکا دیا تھا ،باقی پوری فوج کٹنے مرنے پر آمادہ تھی ، اَبوعریق راوی ہیں کہ ہم بارہ ہزار آدمی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مقدمة الجیش میں کٹنے اَورمرنے کے لیے تیار تھے اَور شامیوں کی خون آشامی کے لیے ہماری تلواروں کی دھاروں سے خون ٹپک رہا تھا جب ہم لوگوں کو صلح کی خبرمعلوم ہوئی تو شدت ِغضب ورَنج سے معلوم ہوتا تھا کہ ١ اَخبار الطوال ص ٢٣٠ ٢ ابن عساکر ج ٢ ص ٢١٩ ٣ مستدرک حاکم ج ٣ ص ١٧