ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
اَور نابالغ ہونے کی صورت میں دو صورتیں ہیں۔ایک صورت یہ کہ باپ زندہ ہو ،دُوسری صورت یہ ہے کہ باپ زندہ نہ ہو۔ اگر باپ زندہ ہو تو صرف باپ کے ذمہ نان ونفقہ ہے ماں کے ذمہ کچھ بھی نہیں اَلبتہ دُودھ پلانا فتویٰ کی رُو سے ماں کے ذمہ واجب ہے اَور بروئے حکم وقضاء جبرنہ ہوگا۔ اگر بچہ کسی اَور کا دُودھ نہ پئے اُس وقت ماں پر جبر بھی کیا جائے گا۔ اَور اگر باپ زندہ نہ ہو تو ماں کے ذمہ (نفقہ)واجب ہے۔اَور (اگر ایسی صورت میں یعنی جبکہ باپ زندہ نہ ہو)بچہ کے اَقارب ذی رحم(رشتہ دار)زندہ ہوں تو سب پر تقسیم ہو گا۔اِن سب صورتوں کی دلیل دُرِّمختارکی عبارت ہے۔(اِمدادُالفتاوٰی) لڑکے اَورلڑکی کی شادی کر نابا پ کے ذمہ واجب ہے یا نہیں تا خیر کرنے سے کتنا گنا ہ ہو گا : سوا ل : لڑکیوں کی شادی کرنے کاکوئی تاکید ی حکم خاص طورپرہے یا نہیں اَور تاخیر کی صورت میں کوئی گنا ہ لازم آتاہے یانہیں اگر لازم آتاہے تو کس قدر؟ نص قرآنی وحدیث سے علیحدہ علیحدہ جواب دیں۔ جواب : شادی کا تاکیدی حکم قرآن میں بھی ہے اَور حدیث میں بھی عام طور سے ہے جو کہ لڑکا لڑکی دونوں کو شامل ہے۔ اَور لڑکیوں کے لیے خصوصیت سے بھی قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی اَنْکِحُوا لْاَیَامٰی مِنْکُمْ الایة یہ اَمر کا صیغہ ہے جس کا مدلول وجوب ہے اَور اَیامی جمع اَیم کی ہے شراح حدیث نے تشریح کی ہے اَلْاَیِّمُ مَنْ لَّازَوْجَ لَھَا بِکْرًا کَانَتْ اَوْ ثَیِّبًا وَیُسَمَّی الرَّجُلُ الَّذِیْ لاَ زَوْجَةَ لَہ اَیِّمًا اَیْضًا ۔ قرآن پاک کی آیت کاترجمہ یہ ہے کہ تم لوگ اَیَامٰی کانکاح کردیا کرو اَور اَیَامٰی اَیِّمْ کی جمع ہے جس کامطلب یہ ہے کہ ایسی لڑکی جس کا شوہر نہ ہو خواہ باکرہ ہو یا ثیبہ یعنی کنواری ہویابیاہی اِسی طرح اَیِّمْ اُس مرد کو بھی کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو۔ اَب رہ گئی حدیث تو مشکوة شریف باب تعجیل الصلوة میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : اَنَّ النَّبِیَّ ۖ قَالَ یَا عَلِیُّ ثَلَاث لَاتُؤَخِّرْھَا الصَّلٰوةَ اِذَا اٰنَتْ، اَلْجَنَازَةَ اِذَا حَضَرَتْ وَالْاَیِّمَ اِذَا وَجَدَتَّ لَھَا کُفْوًا۔ ( رواہ الترمذی ) ''حضور ۖ نے فرمایا اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو، ایک تونماز جب اُس کاوقت آجائے، دُوسرے جنازہ میں جب وہ تیار ہوجائے ،تیسرے بے بکاح لڑکے اَور لڑکی کی شادی میں جبکہ جوڑ مل جائے۔''