ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
کھالیں اکٹھی کر تی ہے توہم پر اُن کا بڑا حق ہے اَب چند سالوں سے یہاں سے کچھ طلباء کو ہمیں بھیجنا پڑتا ہے کچھ کام وہاں بڑھ گیا ہے لیکن وہاں کے لوگ باقاعدہ ساتھ دیتے ہیں مولانا اِنعام اللہ صاحب جاتے ہیں اَور چار پانچ طلباء یہاں سے ہر سال جاتے ہیں اَور اُس میں وہ لوگ بھی ساتھ دیتے ہیں ساتھ بیٹھتے ہیں تو اُن کا ہمارے اُوپر بہت حق ہے اِس اِدارے کے لیے ہر وقت فکرمندرہتے تھے اَب اُن کی اَولاد فکر مندرہتی ہے اَور وہ اُسی طرح کرتے ہیں جیسے وہ کرتے تھے ۔ ایک دفعہ مسعود میاں کا واقعہ ہے چھوٹا بھائی ہے وہ کراچی گیا ہوا تھا تو کہنے لگے کہ قاری صاحب نے ایک شاگرد کو بُلایا اواَیاز اِدھر آوہ آیا، جا اِن کو سیر کرا کرلا، اُس نے اپنی گاڑی نکالی اُس میں وہ لے کر گیا کلفٹن اَور اِدھر اُدھر مسعود میاں کو کراچی کی سیر کرائی اُس نے تومسعود میاں بتاتے ہیں کہ وہاں کلفٹن میں بحری جہاز دُورسے نظر آتے ہیں آپ کبھی سمندر پر گئے ہوں گے تو بحری جہاز دُور سے تنکے کی طرح نظر آتے ہیں حالانکہ وہ اِتنا بڑا ہوتاہے مسجد حامد سے بھی بڑا ہوتا ہے، کچھ اَور جہاز بھی کھڑے تھے تو وہ کہنے لگا وہ ہمارا جہاز ہے پھر ایک اَورکے بارے میںکہنے لگا کہ وہ بھی ہمارا جہاز ہے۔ مسعود میاں کہنے لگے کہ میں سمجھا کہ شاید یہ کوئی دماغی معذور ہے بیمار ہے اِس لیے ایسی باتیں کر رہا ہے کوئی دورہ پڑتا ہوگا اِس بچارے کو اِس لیے یہ ایسی باتیں کر رہا ہے کہتے ہیں کہ میں مسکرا بھی دُوں اَور کچھ سنجیدہ بھی ہوجاؤں کہ یہ اِس نے کیسی باتیں شروع کر دیں اللہ خیر کرے آگے کیا کرے گا کہیں اَور ہی نہ لے جائے مجھے تو خیر وہ کہتا رہا اَور یہ بھی ہاں ہاں کرتے رہے ، جب واپس آئے تو پتہ چلا کہ یہ جو سیٹھ عابد ہے پاکستان کا بہت بڑا سیٹھ ہے یہ اُس کا بیٹا ہے اِس لیے وہ صحیح کہہ رہا تھا تو اُن کے بحری جہاز واقعی چلتے ہیں ہوائی جہاز بھی ہیں اُن کے وہ سیٹھ عابد کا بیٹا تھا جب میں قاری صاحب کے پاس کبھی جاتا تھا تو بچوں کی باری مقرر ہوتی تھی جہاں بچے بیٹھتے ہیں اُس کی تپائیاں سیدھی کرنا صاف کر کے لگانا ٹاٹ پھیرنا جھاڑو دینا تو ایک دِن اُس کی باری ہوتی تھی وہ کام کرتا تھا اِسی طرح سب لڑکوں کی باری ہوتی تھی یوں ہاتھ رکھ کے پیچھے پائوں کر کے جیسے بچے چلتے ہیں گھوڑے کی طرح اِس طرح چلتا تھا اَورپونچا دیتا تھا۔ مطلب یہ کہ مالدار کا بچہ غریب کا بچہ قاری صاحب کے یہاں ایک نظر سے دیکھا جاتا تھا جیسے غریب کے بچہ کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ آج تمہاری صفائی کی باری ہے ایسے ہی مالدار کے بچہ کی بھی باری ہوتی تھی۔ اَور بہت کوشش کرتا تھا سیٹھ عابد کہ قاری صاحب کو یہ دے دُوںاَور یوں کردُوں حتی کہ حضرت کے پاس جب کراچی سے قاری صاحب ٹرین میں آتے تھے اَب بیماری کی وجہ سے ہوائی جہاز سے آتے تھے۔