ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
ہر وقت مہمانوں کی راحت وآرام کا خیال رکھتے تھے ، سر دی وگر می کے بستر ، چارپا ئیاں ، مچھر دانیاں تک مہمانوں کے لیے مہیا فرما کر رکھی تھیں ۔مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک مرتبہ سردیوں کے موسم میں مہمانوں کی اِتنی زیادتی ہوئی کہ تمام لحاف و بچھونے ختم ہو گئے تب آپ نے اپنے اِستعمال کا بستر بھی مہمانوں کے لیے باہر بھیج دیااَور رات اَنگیٹھی کے سامنے گزاری ۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک ٹانڈہ میں آپ نے مہمان سے اِرشاد فرمایا یہاں گرمی زیادہ ہوتی ہے اَور آپ لوگ دُور دَراز سے آتے ہیں اَور میں آ پ کی کچھ بھی خدمت نہیں کر پاتا۔ چنانچہ مولانا اَصغر علی صاحب نے حضرت سے عرض کیا کہ آپ پر تو اِن مہما نوں کا بھی احسان ہوگا ، آپ نے اِرشا د فر مایا بے شک اِن حضرات کا مجھ پر بڑا احسان ہے جو یہ لوگ تشریف لاتے ہیں اَور میں اِن کی کچھ بھی خدمت نہیں کرپاتا۔ یہ حال اُس وقت ہے جبکہ مہمانوں کے لیے بہترین قسم کی افطاری ، برف کا پانی، کھانے کے لیے اچھا کھانا ، چائے وغیرہ سب چیزیں موجود ہوتی تھیں ، ایک دفعہ رمضان شریف میں خدام میں سے کسی نے عرض کیا کہ آج کل خشکی اَور گرمی زیادہ ہے سحری میں تھوڑادُودھ نوش فرما لیاکیجئے ، آپ نے اِرشاد فرما یا کیا سب مہمانوں کے لیے دُود ھ کا اِنتظام ہو جا ئے گا چونکہ ٹانڈہ میں اِتنی کثیر مقدار میں دُودھ فراہم ہو نا مشکل تھا لہٰذا یہ طے پایا کہ سحری میں چاول یا کھیروغیرہ تیارکرادی جائے اَور اُس میں کچھ دُود ھ بھی ڈال دیا جائے چنانچہ یہی اِنتظام ہوا ، حضرت بھی سحری میں یہی اِستعمال فرماتے تھے ۔ جب کہیں سے کوئی کھانے پینے کی چیزبطور ِہدیہ یا تحفہ آتی آپ فو رََاہی اُسے حاضرین میں تقسیم فرما دیتے ،سالانہ مدینہ منور ہ سے کھجوریں آتیں آپ ہندوستان بھر میں اپنے متعلقین کو تقسیم کرادیتے اَور سب مہمانوں اَ ور طلبا ء کو عنایت فرمادیتے ۔ ریل گاڑی میںسفرکرتے وقت بھی ڈبہ میں جو دُوسرے مسافرہوتے آپ اُن کودسترخوان پر بُلا کر بٹھلا تے اَ ورکھانا کھلاتے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ کسی دُوسرے ڈبہ میں ہیں اَور طلباء (زمانہ تعطیل میں گھر جاتے وقت) دُوسرے ڈبے میں ہیں تو آپ طلبا ء کے لیے وہاں سے کھانا بھجواتے تھے۔ اگر اسٹیشن پر کوئی صاحب آپ کے لیے چائے یا کوئی دُوسری چیزلاتے آپ طلبا ء کو اُس میں برابر شریک کر تے تھے غرض کہ آپ کی مہمان نوازی ہندوستان بھر میںمشہور ہے۔ (جاری ہے)