ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
|
خدام کے ساتھ : (١) آنحضرت ۖ کے خادم حضرت اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : خَدَمْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشَرَ سِنِیْنَ وَاللّٰہِ مَا قَالَ لِیْ اُفٍّ قَطُّ وَلَاقَالَ لِشَیْئٍ لِمَ فَعَلْتَ کَذَا وَ ھَلَّا فَعَلْتَ کَذَا وَفِیْ رِوَایَةٍ کَانَ النَّبِیُّ ۖ اَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا فَاَرْسَلَنِیْ یَوْمًا لِحَاجَةٍ فَقُلْتُ وَاللّٰہِ لَا اَذْہَبُ وَفِیْ نَفْسِیْ اَنْ اَذْھَب لِمَا اَمَرَنِیْ بِہ فَخَرَجْتُ حَتّٰی اَمُرَّ عَلٰی صِبْیَانٍٍ وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ فِی السُّوْقِ فَاِذَا النَّبِیُّ ۖ قَدْ قَبَضَ بِقَفَائِیْ مِنْ وَّرَائِیْ فَنَظَرْتُ اِلَیْہِ وَھُوَ یَضْحَکُ فَقَالَ یَا اُنَیْسُ ذَھَبْتَ حَیْثُ اَمَرْتُکَ قُلْتُ نَعَمْ اَنَا اَذْھَبُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ اَنَسُ وَاللّٰہِ لَقَدْ خَدَمْتُہ تِسْعَ سِنِیْنَ مَاعَلِمْتُ قَالَ لِشَیْئٍ صَنَعْتُہ لِمَ فَعَلْتَ کَذَا وَکَذَا وَلِشَیْئٍ تَرَکَتُہ ھَلَّا فَعَلْتَ کَذَا وَکَذَا ۔ (للشیخین و ابی داود والترمذی) میں نے حضور ۖ کی خدمت دس سال تک کی، خدا کی قسم کبھی آپ نے مجھے اُف تک نہیں کہا اَور نہ کبھی یہ فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا اَور کیوں نہیں کیا۔دُوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ حضور ۖ تمام اِنسانوں میں سب سے زیادہ بہترین اَخلاق والے تھے چنانچہ ایک دِن مجھے آپ ۖ نے ایک ضرورت کے لیے بھیجا میں نے کہا میں نہ جاؤں گا حالانکہ دِل میں یہی خیال تھا کہ میں چلا جاؤں گا جس کام کے لیے آپ ۖ نے مجھے حکم فرمایا ہے چنانچہ میں گیا، راستے میں میرا گزر کھیلتے ہوئے بچوں کے پاس ہوا جو بازار میں کھیل رہے تھے، میں بھی اُسی میں مشغول ہو گیا اَور بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا، اچانک حضور ۖ کا گزر اُس طرف ہوا۔ آپ ۖ نے پیچھے سے میری گُدّی پکڑی میں نے جو دیکھا تو حضور ۖ مسکرارہے ہیں۔ آپ ۖ نے محبت سے فرمایا اَے اُنیس! میں نے جس جگہ کے لیے تجھے حکم دیا تھا تو گیا کہ نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور جاتاہوں۔ حضرت اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںخداکی قسم !میں نے