ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
ہی پانچ روپے نکال کر عنایت فرمائے۔ کسی نے عرض کیا کہ حضرت یہ آدمی تو علماء کو گالیاں دیتا ہے، آپ نے فرمایا اِسی وجہ سے تو میں نے روپے دِیے ہیں کہ اِس کو خیال ہوگا کہ علماء سے روپے ملتے ہیں اِن کو گالیاں نہ دینی چاہئیں۔ دارُالعلوم دیوبند کا طلباء کے متعلق ایک دستور ہے کہ جو طالب علم ٤٠ فیصدی نمبروں سے کامیاب ہوگا مدرسہ اُسی کی کفالت کرے گا چنانچہ فیل ہونے والے غریب و نادار طلباء یا تو شہر کی مسجدوں سے وابستہ ہوتے یا پھر حضرت شیخ الاسلام کے آستانہ سے وابستہ ہوتے۔ ایک دفعہ درمیان سال میں میرے ایک ساتھی کا دارُالعلوم نے ایک قصور کی بناء پر کھانا بند کردیا وہ روتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا اچھا ! آپ ہمارے یہاں کھانا کھایا کریں۔ ایسا بھی بارہا ہوتا دیکھا گیا ہے کہ آپ کے پاس کچھ نہیں، سائل نے سوال کیا تو آپ نے دُوسروں سے قرض لے کر سائل کا سوال پورا کیا۔ کلکتہ اسٹیشن کا واقعہ ہے کہ ایک نوجوان سائل نے سوال کیا آپ نے دُوسرے سے دو رپے قرض لے کر سائل کو عنایت فرمائے۔ دیوبند کے ایک صاحب جو آج بھی حضرت کے دسترخوان پر کھاتے ہیں اَور برسوں سے کھاتے چلے آرہے ہیں، ایک دِن جب حضرت نے اُن کو دسترخوان پر نہیں دیکھا تو دریافت کیا کہ وہ صاحب کہاں ہیں؟ خدام میں سے کسی نے عرض کیا کہ حضرت فلاں آدمی نے اُن کو جھڑک دیا۔ پس پھر کیا تھا حضرت آگ بگولہ ہوگئے اَور دسترخوان سے اُٹھ کھڑے ہوئے چاروں طرف آدمی دوڑادِیے اَور بُلا کر اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ گرمی کا موسم تھا آپ صحنِ مکان میں تشریف فرما تھے، باہر سے ایک گندھلین نے طلباء سے کہا ''مولبی جی! پانی پِلادو'' (دیوبند ی عوام کی زبان) مگر کسی نے نہ سُنا، چنانچہ حضرت چار پائی سے اُٹھے اَور لوٹا لے کر نل کے پاس گئے۔ پھر کیا تھا تمام حاضرین دوڑ پڑے۔ حضرت نے سب کو ڈانٹ دیا اَور خود پانی بھر کر اُس گندھلین کو پلایا۔ بعض مرتبہ حالت ِدرس میں غرباء ومساکین اَور کمزور لوگوں کی اِمداد کی طرف توجہ دِلاتے اُس وقت آپ اِس حدیث کو بیان فرمایا کرتے تھے ھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَ تُرْزَقُوْنَ اِلَّابِضُعَفَائِکُمْ ۔(بخاری) تم کو ضعفاء اَور کمزور لوگوں کی وجہ ہی سے رزق دیا جاتا ہے اَور اِن ہی کی وجہ سے تمہاری اِعانت کی جاتی ہے۔