ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
|
حرف آغاز نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد! گزشتہ چند ہفتوں سے ننکانہ کی ایک عیسائی عورت کی طرف سے شانِ رسالت میں گستاخی کا واقعہ ہر خاص و عام میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے، آسیہ مسیح نامی عیسائی عورت نے گذشتہ برس جون میں حضرت محمد رسول اللہ ۖ کی شان میں برملا گستاخی کی جسارت کی جس پر مقامی مسلمانوں کی طرف سے احتجاج ہوا، بعد اَزاں پنچایت ہوئی جس میں ملزمہ کو مجرم قرار دیا گیا پھر پولیس تفتیش میں بھی ملزمہ مجرم ثابت ہوئی بلکہ خود اُس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا۔ سیشن کورٹ میں مقدمہ چلا گواہوں کے بیانات، مقدمہ کے چالان اَور ملزمہ کے اعتراف کے بعد عدالت نے اِسے مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنادی۔ بعد اَز اں مجرمہ نے ہائیکورٹ میں اِس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی تاحال اُس کی سماعت شروع نہیں ہوئی ،ہائیکورٹ کے بعد یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں بھی جا سکتا ہے اَور فیصلہ بحال رکھنے کی صورت میں مجرمہ سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل بھی کر سکتی ہے مگر اَدنیٰ سے اَدنیٰ اِیمان کے تقاضہ کی بنیاد پر قوی اُمید کی جاسکتی ہے کہ اِنشاء اللہ فیصلہ پھر بھی بحال ہی رہے گا۔ مگر دُوسری طرف ایک شرم ناک پہلویہ بھی ہے کہ معاملہ عدالت میں دائر ہونے کے باوجود گورنر پنجاب جناب سلمان تاثیر مجرمہ سے ملاقات کے لیے جیل پہنچ گئے اُس سے ایک تحریر حاصل کر کے سزا سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار نے شروع کر دیے۔ ایک سر کش کافرہ کے لیے گور نر صاحب کا اِس قدر فکر مند ہونا بے وقاری کے ساتھ ساتھ توہین ِعدالت کے زُمرے میں بھی آجاتا ہے۔ حکومتی ذمہ داروں کا اِنصاف کے حصول میں علی الاعلان روڑے اَ ٹکانا جہاں اُن کے منفی کردار کی عکاسی کرتا ہے وہیںاِداروں کے کھوکھلے پن کو بھی نمایاں کر رہا ہے ۔