ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
جنس سے کوئی واجب اَور فرض نہیں ہوتا۔ (٦) نذر کے اِلفاظ کے ساتھ اِنشاء اللہ نہ کہا ہو کیونکہ اِنشاء اللہ کہنے سے نذر باطل ہوجاتی ہے مثلاً یوں کہا اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اِنشاء اللہ سو روپے صدقہ کروں گا یا میں سو روپے صدقہ کروں گا اِنشاء اللہ تو نذر نہیں ہوئی۔ نذر کے بارے میں ایک اَور ضابطہ : نذر کر نے والے نے اصل عبادت جس کا اِلتزام کیا ہے صرف وہ لازم ہو تی ہے اُس کے ہر وصف جس کا اُس نے اِلتزام کیا ہو لازم نہیں ہوتامثلاًصدقہ میں روپے کی یا فقیر کی یا جگہ کی تعیین اَور اِسی طرح نماز میں جگہ کی تعیین اَورروزے میں دِن اَور مہینے کی تعیین لازم نہیں ہوتی۔ مسئلہ : کسی نے کہا یا اللہ !اگر میرا فلانا کام ہوجائے تو پانچ روزے رکھوں گا تو جب کام ہوجائے گا پانچ روزے رکھنے پڑیں گے اَور اگر کام نہیں ہوا تو نہ رکھنے پڑیں گے۔اگر فقط اِتنا ہی کہا ہے کہ پانچ روزے رکھوں گاتو اِختیار ہے چاہے پانچوں روزے ایک دم سے لگاتار رکھے اَور چاہے ایک ایک دو دو کر کے پورے پانچ کر لے دونوں باتیں درست ہیں۔اَور اگر نذر کرتے وقت یہ کہہ دیا کہ پانچوں روزے لگاتار رکھوں گا یا دِل میں یہ نیت تھی تو سب ایک دم سے رکھنے پڑیں گے اگر بیچ میں ایک آدھ چھوٹ جائے تو پھر سے رکھے۔ مسئلہ : اگر یوں کہا کہ جمعہ کا روزہ رکھوں گا یا محرم کی پہلی تاریخ سے دسویں تاریخ تک روزے رکھوں گا تو خاص جمعہ کو روزہ رکھنا واجب نہیں اَور محرم کی خاص اِنہی تاریخوں میں روزہ رکھنا واجب نہیں جب چاہے دس روزے رکھ لے لیکن دسوں لگاتار رکھنا پڑیں گے چاہے محرم میں رکھے چاہے کسی اَور مہینے میں سب جائزہے۔اِسی طرح اگر یہ کہا کہ اگر آج میرا یہ کام ہوجائے تو کل ہی روزہ رکھوں گا جب بھی اِختیار ہے جب جب چاہے رکھے۔ مسئلہ : کسی نے نذر کرتے وقت یوں کہا محرم کے مہینے کے روزے رکھوں گا تومحرم کے پورے مہینے کے روزے لگا تار رکھنے پڑیں گے اگر بیچ میں حیض کی وجہ سے دس پانچ روزے چھوٹ جائیں تواِس کے بدلے اِتنے روزے اَور رکھ لے سارے روزے نہ دوہرائے اَور یہ بھی اِختیار ہے کہ محرم کے مہینہ میں نہ رکھے کسی اَور مہینہ میں رکھے لیکن سب لگا تار رکھے۔