ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
|
عہد ِعثمانی : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے زمانہ میںایسا ہی شفقت اَمیز طرز ِ عمل رکھا۔ صدیقی اَور فاروقی دَور میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنی کم سنی کے باعث کسی کام میں حصہ نہ لے سکتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں پورے جوان ہو چکے تھے چنانچہ اِسی زمانہ سے آپ کی عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ اِس سلسلہ میں سب سے اَوّل طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے، یہ فوج کشی سعید بن العاص کی ماتحتی میں ہوئی تھی۔ (ابن اَثیر ج ٣ ص ٨٤ طبع یورپ) اِس کے بعد جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ اُٹھا اَور باغیوں نے قصرِ خلافت کا محاصرہ کر لیا تو حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے والد بزرگوار کو یہ مفید مشورہ دیا کہ آپ محاصرہ اُٹھنے تک کے لیے مدینہ سے باہر چلے جائیے کیونکہ اگر آپ کی موجود گی میں عثمان رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے تو لوگ آپ کو مطعون کریں گے اَور اُن کی شہادت کا ذمّہ دارٹھہرائیں گے لیکن باغی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نقل وحرکت کی برابر نگرانی کر رہے تھے اِس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ اِس مفید مشورہ پر عمل پیرا نہ ہو سکے۔ (ابن اَثیر ج٣ ص ١٨١) اَلبتہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا چنانچہ اُنہوں نے اَور اُن کے دُوسرے ساتھیوں نے اِس خطرہ کی حالت میں نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ حملہ آوروں کی مدافعت کی اَور باغیوں کو اَندر گھسنے سے روکے رکھا۔ اِس مدافعت میں خود بھی بہت زخمی ہوئے سارا بدن خون سے رنگین ہو گیا لیکن حفاظت کی یہ تمام تدبیریں ناکام ثابت ہوئیں اَور باغی چھت پر چڑھ کر اَندر گھس گئے اَور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر ہوئی تو آپ نے جوشِ غضب میں حسن رضی اللہ عنہ کو طمانچہ مارا کہ تم نے کیسی حفاظت کی کہ باغیوں نے اَندر گھس کر عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالا ۔ (تاریخ الخلفاء سیوطی ص ١٥٩) بیعت ِخلافت کے وقت حضرت علی کو مشورہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدجب مسندِ خلافت خالی ہو گئی اَور مسلمانوں کی نگاہِ انتخاب حضرت علی رضی اللہ عنہ پر پڑی اَور اُنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہی تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے غایت اَور عاقبت اَندیشی سے والد بزرگوار کو یہ مشورہ دیا کہ جب تک تمام ممالکِ اِسلامیہ کے