ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
|
رحمة للعالمین ۖکے لیے تعددِ اَزواج کی حِکمت ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری ) حضور اَقدس ۖ کی ذات والاصفات سراپا رحمت و برکت ہے۔ تبلیغ احکام، تزکیۂ نفوس اَور ابلاغ ِقرآن آپ کا سب سے بڑا مقصد ِبعثت تھا۔ آپ ۖ نے اِسلام کی تعلیمات کو قولاً و عملاً دُنیا میں پھیلایا یعنی آپ ۖ بتاتے بھی تھے اَور کر کے بھی دِکھاتے تھے۔ اِنسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نبی اَکرم ۖ کی رہبری کی ضرورت نہ ہو۔ نماز باجماعت سے لے کر بیویوں کے تعلقات ،آل و اَولاد کی پرورش اَور پاخانہ پیشاب اَور طہارت تک کے بارے میں آپ ۖکی قولی اَور فعلی ہدایات سے کتب حدیث بھرپور ہیں۔ اَندرونِ خانہ کیا کیا کام کیا، بیویوں سے کیسے میل جول رکھا اَور گھر میں آ کر مسائل پوچھنے والی خواتین کو کیا کیا جواب دیا۔ اِس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں جن سے اَزواجِ مطہرات کے ذریعے ہی اُمت کو رہنمائی ملی ہے۔ تعلیم و تبلیغ کی دینی ضرورت کے پیش نظر حضور اَقدس ۖ کے لیے کثرتِ اَزواج ایک ضروری اَمر تھا۔ صرف حضرت عائشہ سے احکام و مسائل، اَخلاق و آداب اَور سیرت نبوی ۖ سے متعلق دو ہزار دو سو دس روایات مروی ہیں جو کتب ِحدیث میں پائی جاتی ہیں۔ حضرت اُم سلمہ کی مرویات کی تعداد تین سو اَٹھہتر تک پہنچی ہوئی ہے۔ حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین ج:١ ص:٩ میں لکھا ہے کہ اگر حضرت اُم سلمہ کے فتاویٰ جمع کیے جائیں جو اُنہوں نے حضور اَقدس ۖ کی وفات کے بعد دیے ہیں تو ایک رسالہ مرتب ہو سکتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا روایت و درایت اَور فقہ و فتاوی میں جو مرتبہ ہے وہ محتاجِ بیان نہیں اِن کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے۔ حضور اَقدس ۖ کی وفات کے بعد مسلسل اَڑتالیس سال تک علمِ دین پھیلایا۔ بطورِ مثال دو مقدس بیویوں کا مجمل حال لکھ دیا ہے۔ دیگر اَزواجِ مطہرات کی روایات بھی مجموعی حیثیت سے کافی تعداد میں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اِس تعلیم و تبلیغ کا نفع صرف اَزواجِ مطہرات سے پہنچا۔