ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
قسط : ا حضرت اِمام حسن بن علی رضی اللہ عنہما ( حضرت مولانا شاہ معین الدین صاحب ندوی ) نام و نسب : حسن نام، اَبومحمد کنیت، سیّد (اِبْنِیْ ہٰذَا سَیِّد) اَور رَیْحَانَةُ النَّبِیِّ (رَیْحَانَتِیْ فِی الْجَنَّةِ ) خطاب، شبیہ ِرسول لقب، داد ہالی شجرۂ طیبہ یہ ہے : '' اَبُوْ مُحَمَّدٍ حَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قُرَشِیِّ مُطَّلِبِی ۔ آپ کی والدہ ماجدہ سیّدہ بتول فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا جگر گوشہ ٔرسول تھیں اَور آپ کے پدر بزرگوار جناب اَمیر علی مرتضیٰ ابن ِعم ِرسول تھے، اِس لحاظ سے آپ کی ذات ِ گرامی دوہرے شرف کی حامل تھی۔ پیدائش : سن ہجری کے تیسرے سال رمضان المبارک کے مہینہ میں معدنِ نبوت کا یہ گوہر شب چراغ اِستغناء وبے نیازی کی اَقلیم کا تاجدار، صلح ومسالمت کی پرسکون مملکت کا شہنشاہ، عرشِ خلافت کا مسند نشیں، دوشِ نبوت کا سوار، فتنہ و فسادات کابیخ کن، سردار ِ دوعالم کی بشارت کا پورا کرنے والا، اُمت ِ مسلّمہ کامحسن ِ اعظم، نور افزائے عالم ِ وجود ہوا۔ آنحضرت ۖ کو وِلادت باسعادت کی خبر ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اَور فرمایا میرے بچے کو دِکھانا ،کیا نام رکھا گیا؟ عرض کیا گیا'' حرب'' فرمایا نہیں، اِس کا نام'' حسن'' ہے، پیدائش کے ساتویں دِن عقیقہ کیا اَور دو مینڈھوں کی قربانی کر کے سر کے بال اُتر وائے اَو اُن کے ہم وزن چاندی خیرات کی۔