ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
|
عہد ِنبوی ۖ : آنحضرت ۖ کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو غیر معمولی محبت تھی وہ کم خوش قسمتوں کے حصہ میں آئی ہوگی۔ آپ نے بڑے نازو نعم سے اِن کی پرورش فرمائی، کبھی آغوشِ شفقت میں لیے ہوئے نکلتے، کبھی دوشِ مبارک پر سوار کیے ہوئے برآمد ہوتے ،اِن کی اَدنی اَدنی تکلیف پر بے قرار ہوجاتے، بغیر حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھے ہوئے نہ رہا جاتا تھا۔ اِن کو دیکھنے کے لیے روزانہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اَور حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی آپ سے بے حد مانوس ہوگئے تھے، کبھی نماز کی حالت میں پشت ِمبارک پر چڑھ کے بیٹھ جاتے، کبھی رُکوع میں ٹانگوں کے کے درمیان گھس جاتے، کبھی ریش مبارک سے کھیلتے، غرض طرح طرح کی شوخیاں کرتے، جاں نثار نانا نہایت پیار اَور محبت سے اِن طفلانہ شوخیوں کو برداشت کرتے اَور کبھی تادیباً بھی نہ جھڑکتے بلکہ ہنس دیا کرتے تھے، اَبھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ آٹھ ہی سال کے تھے کہ یہ بابرکت سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ عہد ِصدیقی : اِس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مسند نشینِ خلافت ہوئے۔ آپ بھی ذاتِ نبوی ۖ کے تعلق کی وجہ سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ بڑی محبت فرماتے تھے، ایک مرتبہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ عصر کی نماز پڑھ کر نکلے حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے۔ راستہ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کھیل رہے تھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُٹھا کر کندھے پر بٹھا لیا اَور فرمانے لگے قسم ہے یہ نبی کے مشابہ ہے علی کے مشابہ نہیں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر ہنسنے لگے۔ (بخاری شریف کتاب المناقب الحسن و الحسین) عہد ِفاروقی : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے زمانہ میں دونوں بھائیوں کے ساتھ ایسا ہی محبت آمیز برتاؤ رکھا چنانچہ جب آپ نے کبار صحابہ کے وظائف مقرر کیے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ اِس صف میں نہ آتے تھے لیکن آپ کا بھی پانچ ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر فرمایا۔ (فتوح البلدان بلا ذری ذکر عطاء عمر بن الخطاب)