ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
|
وَالْفَدَّادِیْنَ اَور وہ لوگ کہ جو اہلِ وَبَر ہیں اَور آواز زور سے نکالتے ہیں تو دیہات میں رہنے والے جنگل میں رہنے والے جو لوگ ہوتے ہیں اُن کو زور سے بولنا ہی پڑتا ہے اَصل میں، کیونکہ اگر وہ آہستہ بولیں تو آواز ہی نہیں جائے گی جنگل میں ،کمرے میں تو آواز گونج جاتی ہے سُنائی دے سکتی ہے لیکن جنگل میں جس آواز سے کمرے میں بول رہے ہیں اگر بولیں تو وہ کسی کو سُنائی نہیں دے گی وہ خود ہی سُنے گا آدمی ،تو اُنہیں زور سے بولنا پڑتا ہے یعنی زور سے بولتے ہیں تو آواز اُن کی بڑھتی بھی ہے ۔ آواز گھٹتی بڑھتی ہے : اَور آواز کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ بڑھتی چلی جاتی ہے آدمی اگر کوشش کرے تو رفتہ رفتہ آواز بڑھ جاتی ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَایَشَآئُ اللہ تعالیٰ مخلوق میں جو چاہے بڑھادیتا ہے تو اِسی میں ایک قراء ت ہے یَزِیْدُ فِی الْحَلْقِ حلق میں یعنی گلے میں اللہ تعالیٰ جو چاہیں بڑھادیتے ہیں اِس کو کہتے ہیں کہ آواز جو ہے وہ بڑھ بھی جاتی ہے ۔تو یہ لوگ جو جنگلوں میں رہتے ہیں دیہات میں رہتے ہیں یا اِسی طرح سے خانہ بدوش ہیں کہ وہ خیمے کہیں ڈال لیے اَور رہ گئے بکریاں بھی وہیں ہیں اُونٹ بھی وہیں ہیں چارہ بھی کہیں سے حاصل کرلیا اِس طرح سے جو رہتے ہیں اُن لوگوں کے مزاجوں میں سختی آجاتی ہے۔ وَالسَّکِیْنَةُ فِیْ اَھْلِ الْغَنَمِ ١ بکر یاں جو لوگ پالتے ہیں اُن میں تواضع اَور سکینہ ہوتا ہے۔ اہلِ مشرق میں فتنہ اَور دِلوں کی سختی : اِس حدیث شریف میں بھی یہی آیا ہے کہ فتنے اِس طرف سے ہوں گے اِس سے آگے جو حدیث آرہی ہے اُس میں بھی یہی آرہا ہے مِنْ ھٰھُنَا جَائَ تِ الْفِتَنُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ مشرق کی سمت سے فتنے آئے یا فتنے ہوں گے۔ ایک دفعہ یہ ہوا کہ رسول اللہ ۖ نے یہ بھی فرمایا کہ غِلَظُ الْقُلُوْبِ دِلوں کی سختی اَور جفاء یہ اہلِ مشرق میں ہے۔ اہلِ حجاز کی تعریف : اَور اِیمان اہل ِ حجاز میں ہے جیسے پہلے تعریف آئی اُوپر اہلِ یمن کی اِسی طرح اہلِ حجاز کی بھی تعریف ١ مشکوة شریف ص ٥٨٢