ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
سے منحرف کرتی ہے حالانکہ سلف ِصالحین، صحابہ کرام، تابعین ِعظام قرون مشہود لہا بالخیر نے اِن کو قبول فرمایا ہے اَور اپنے مذاق کو ہم کتنا ہی درجہ عطا کریں مگر ناقص اَور نارسا ہی ہیں، جن پر تجربہ اَور واقعات شہادت دیتے ہیں احمق سے احمق شخص بھی اپنی عقل کو اَور سمجھ کو سب سے اعلی خیال کرتا ہے۔ گراز بسیط زمیں عقل منعدم گردد بخودگماں نہ برد ہیچ کس کہ نادانم (15) وہ مثل خوارج اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَور مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کا لیبل لگا کر مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہے حالانکہ یہ اُس کی غلط تاویلات اَور بے ربط توجیہات کا ثمرہ اَور کَلِمَةُ حَقٍّ اُرِیْدَ بِھَا الْبَاطِلُ کا نتیجہ ہے نیز سلف صالحین کے آراء اَور اعمال سے بغاوت اَور اِنحراف ہے۔ (16) وہ چکڑ الوی کی طرح ذخیرہ اَحادیث دین متین کو (معاذاللہ) ناقابل ِ اعتبار قرار دیتی ہے اگرچہ وہ اَخبار آحادہی کیوں نہ ہوں، حالانکہ ابتداء اسلام سے لے کر آج تک اِن کو اصول دین قرار دیا گیا ہے اَور بہ نسبت روایات ِتاریخیہ اِن کو زیا دہ قابلِ اعتماد سمجھا گیا ہے۔ (17) وہ مثل فرقہ قادیانیہ اپنے قائد ِ اعظم اَور امیر کو ایسا مختار بتاتی ہے کہ اپنے مذاق سے جس حدیث کو چاہے قابل ِاعتماد قرار دے اَور جس کو چاہے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دے حالانکہ ایسی مطلق العناء رائے اَور حکم میں نہ کسی میں پہلے قرون ِمشہود لہا بالخیر مانی گئی اَور نہ اِس زمانہ فتنہ و فساد میں مانی جاسکتی ہے۔ انابت کاملہ اور علم کامل عنقاء ہو رہے ہیںبلکہ حسب ِارشاد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مُسْتِنًّا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ فَاِنَّ الْحَیَّ لَا یُؤمنُ عَلَیْہِ الْفِتْنَةُ ایسا اَمرمو جودہ دور کے اشخاص میں اِنتہائی ضلالت اَور گمراہی کا پیش ِخیمہ ہے۔ (18) وہ ذخائر فقہ کو غلط اَور ذخیرۂ ضلالت بتلاتی ہوئی ترمیم اَور اصلاح اَور حذف کا حکم دیتی ہے اَور مسلمانوں کے آج تک تیرہ سو برس کے عملدرآمد کو جاہلیت اَور گمراہی بتلاتی ہے اَور گزشتہ سب مسلمانوں کو غیر ناجی کہتی ہے حالانکہ یہ ایسا فتنہ ہے جس پر جس قدر اَفسوس اَور رنج کیا جائے کم ہے۔ (19) وہ مثل ِ معتزلہ اَور روافض وغیرہ اپنے سائن بورڈ وغیرہ پر''حقیقی تو حید کا دفتر'' جماعتِ موّحدین ''حقیقی کامین اسلام '' اَور اِس کے مرادف الفاظ لکھتی ہے جس طرح معتزلہ اپنے آپ کو اصحاب العدل اَور اصحاب التوحید کہتے اَو لکھتے تھے۔ شیعہ اپنے آپ کو ''مُحبیّن اہل ِ بیت'' لکھتے ہیں (باقی صفحہ ٣٠ )