ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
مولانا محمد حسین صاحب مرحوم بٹالوی جو کہ غیر مقلدوں کے نہایت جوشیلے امام تھے اَور عدم ِ تقلید کے زور دار حامی اَور ہندوستان میں اِس کے پھیلانے والے تھے، اپنے رسالہ اشاعت السنہ جلد دوم ص ٥١، ٥٢ و ٥٣ میں لکھتے ہیں : ''پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد ِ مطلق اَور تقلید ِ مطلق کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اِسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں، اُن میں سے بعض عیسائی ہوجاتے ہیں اَور بعض لامذہب جو کسی دین و مذہب کے پابند نہیں رہتے اَور احکامِ شریعت سے فسق و خروج تو آزادی کا اَدنیٰ نتیجہ ہے، اِن فاسقوں میں بعض تو کھلم کھلا جمعہ، جماعت، نماز ،رو زہ چھوڑ بیٹھتے ہیں، سود و شراب سے پرہیز نہیں کرتے اَور بعض جو کسی مصلحت ِدُنیاوی سے فسق ِ ظاہری سے بچتے ہیں وہ فسق ِ مخفی میں سرگرم رہتے ہیں، ناجائز طور پر عورتوں کو نکاح میں پھنسا لیتے ہیں، ناجائز حیلوں سے لوگوں کے مال اَور خدا کے مال و حقوق کو دَبا رکھتے ہیں، کفرو اِرتداد و فسق کے اسباب دُنیا میں اَور بھی بکثر ت موجود ہیں مگر دین داروں کے بے دین ہوجانے کے لیے بے علمی کے ساتھ ترک ِتقلید بڑا بھاری سبب ہے الخ(مختصرًا)۔ '' جس ''بے علمی'' کو مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی مذکور نے ذکر فرمایا ہے، وہ تو اِس زمانہ میں عام طور پر اہل ِ علم میں بھی موجود ہے بالخصوص پروفیسر اَور انگریزی تعلیم یافتہ حضرات میں ،یہ حضرات تو علوم ِ اسلامیہ اَور فنون ِ عربیہ اَور اَدب ِ عربی سے اِسی طرح ناواقف ہیں جس طرح عوام مسلمین اَور اگر کسی میں قدرے شُد بُد موجود بھی ہے تو وہ بمنزلہ عدم ہے، عموماً یہ حضرات اُردو، فارسی یاانگریزی ترجموں سے کام لیتے ہوئے پائے جاتے ہیں، اُن میں سے جولوگ کسی یونیورسٹی میں خواہ ہندوستانی ہوں یایورپین عربی کے ایم، اے اَور فاضل بھی ہیں، وہ عربی درسگاہوں کے سامنے بمنزلہ طفل ِ مکتب ہیں، نہ صحیح عبارت عربی قواعد کے مطابق پڑھ سکتے ہیں اَور نہ لکھ سکتے ہیں اَور نہ بے تکلف بول سکتے ہیں ۔اَور اگر بعض چیدہ اشخاص میں ایسی قابلیت بھی پائی جاتی ہے تو وہ اُن دیگر علوم سے یقینا بے بہرہ ہوتے ہیں جن پر اجتہاد فی الدین کے علاوہ اَدب ِ عربی کا مدار ہے، چنانچہ مشاہدہ اَور تجربہ ہے ایسی صورت میں اُن پروفیسروں کو اجتہاد اَور ترک ِ تقلید کرنا اَور اِس کی