ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
|
ملک ہے اِس لیے کہ وہ ہمارے خدا کا ملک ہے۔ پھر طارق اور اُس کا لشکر ایسی جوانمردی کے ساتھ لڑا کہ دُشمن اُن کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور اُنہیں بد ترین شکست اُٹھانا پڑی ۔روایات میں آتا ہے کہ طارق نے خود رَاڈرک کو اپنے پاتھوں سے قتل کیا اور اپنی قوم کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو پورا کیا۔اُندلس کی فتح کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں نے یورپ کے اَندر قدم رکھ دیے ہیں مسلمانوں نے پورے آٹھ سو سال تک اسپین میں حکومت کی جس کے دوران اُنہوں نے علم و دانش تہذیب و تمدن کے منفرد چراغ روشن کیے اُنہوں نے اِس خطے کو دُنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ بنایا پوری دُنیا سے لوگ اُسے نہ صرف دیکھنے آتے بلکہ وہاں تعلیم بھی حاصل کرتے۔ غَرْنَاطَہْ : قرطبہ کے بعد مسلمانوں کا دُوسرا بڑا تاریخی شہر غرناطہ ہے۔ غرناطہ رُومی زبان میں اَنار کو کہتے ہیں جب مسلمانوں نے اُندلس فتح کیا تو اِس نام کا کوئی شہر موجود نہیں تھا آج کے غرناطہ کو اُس وقت البیرہ کہا جاتا تھا۔ چوتھی صدی ہجری میں مسلمانوں نے شہر غرناطہ بسایا تو البیرہ اِس میں مدغم ہو گیا اِس طرح اس مجموعے کا نام ''غرناطہ'' مشہور ہو گیا۔ غرناطہ شہر اپنے قدرتی مناظر، آب و ہوا اور بہترین محل و قوع کے اعتبار سے ایک جنت نظیر خطہ سمجھا جاتا تھا۔ اِس شہر کے ایک سرے پر پہاڑوں کی چوٹیاں اور دُوسرے کنارے پر بہتا ہوا دریا غیر مسلم وزراء اور سفراء کی آنکھیں چوندیا دیتا تھا۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب غرناطہ کے آخری والی ابو عبداللہ نے شہر کی چابیاں بغیرلڑائی کے فرڈی ننڈ اَور اَزابیلا کو پیش کر کے جان کی امان پائی تو اِسی کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھا، یہی وہ غرناطہ تھا جس کے چوراہوں اور چوکوں پر عربی کتابوں کی شکل میں علم و فضل کے ذخیرے ہفتوں تک جلتے رہے جس کی مسجدیں چرچوں میں تبدیل کر دی گئیں مسلمانوں کو زبر دستی عیسائی بننے پر مجبور کیا گیا۔ عزت مآب خواتین کی عصمت دری کی گئی حالات اس طرح کے پیدا کیے گئے کہ مسلمان یہ پورا علاقہ خالی کر کے مراکش الجزائر اور دیگر ممالک میں ہجرت کر گئے جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ اِس خطے میں کیا گیا وہ دُنیا کے کسی اور ملک میں نہیں کیا گیا۔ ہم نمازِ ظہر کے قریب غرناطہ پہنچ گئے ہمارا ہوٹل ''الحمرائ'' جس کو دیکھنے کے لیے ہم نے غرناطہ کا سفر کیا تھا بالکل قریب واقع تھا ہم نے اپنا سامان اپنے اپنے کمروں میں رکھا غسل کر کے نماز ِظہر ادا کی ( باقی صفحہ ٤٤ )