ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
|
''رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا ''اِسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم کی گئی ہے، ایک اِس حقیقت کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (عبادت اور بندگی کے لائق) نہیں اور محمد (ۖ) اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں، دُوسرے نماز قائم کرنا، تیسرے زکوٰة ادا کرنا، چوتھے حج کرنا، پانچویں رمضان کے روزے رکھنا۔'' فائدہ : اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر نماز، زکوٰة ، روزہ سب کرتا ہو مگر حج فرض نہ کیا ہو تو اُس کی نجات کے لیے کافی نہیں۔ (''حیاة المسلمین'' اَز حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ) حج کس پر فرض ہے ؟ ہر مسلمان صاحب ِ استطاعت پر حج کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے : وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ ۔ ( سورہ آل عمران آیت ٩٧) '' اللہ تعالیٰ کی (رضا) کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے اُن لوگوں پر جو اُس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو شخص (اللہ تعالیٰ) کا حکم نہ مانے تو (اللہ تعالیٰ کا اِس میں کیا نقصان ہے) اللہ تعالیٰ تو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے ۔'' تشریح : اِس میں وہ شخص تو داخل ہے ہی جو صراحتًا حج کے فریضہ کا منکر ہو، حج کو فرض نہ سمجھے، اُس کا دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہونا ظاہر ہے، اس لیے '' وَمَنْ کَفَرَ'' کا لفظ اِس پر صراحتًا صادق ہے اور جو شخص عقیدہ کے طور پر فرض سمجھتا ہے لیکن باوجود استطاعت و قدرت کے حج نہیں کرتا وہ بھی ایک حیثیت سے منکر ہی ہے، اُس پر لفظ '' وَمَنْ کَفَرَ'' کا اطلاق تہدید وتاکید کے لیے ہے کہ یہ شخص کافروں جیسے عمل میں مبتلا ہے جیسے کافر و منکر حج نہیں کرتے یہ بھی ایسا ہی ہے۔ اِسی لیے فقہائے کرام نے فرمایا کہ آیت کے اِس جملہ میں اُن لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو باوجود قدرت و استطاعت کے حج نہیں کرتے کہ وہ اپنے اِس عمل سے کافروں کی طرح ہوگئے کیونکہ اِس آیت میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے رویّہ کو'' وَمَنْ کَفَرَ''کے لفظ سے بیان کیا ہے اور ''فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ'' کی وعید سنائی گئی، اِس کا مطلب یہی ہوا کہ ایسے ناشکرے اور نافرمان جو کچھ بھی کریں اور جس حال میں مریں اللہ کو اُن کی کوئی پرواہ نہیں۔ (معارف القرآن ج ٢ ص ١٢٢)