ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
|
چار رَوز اُندلس میں ( جناب مولانا ضیاء المُحسن صاحب طیّب،برمنگھم، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور ) مَدَیْنَةُ الزَّہْرَاء : جامع قرطبہ کے علاوہ مسلمانوں کے دور کی دُوسری اہم یاد گار جو آج بھی باقی ہے وہ مدینة الزہرا ہے جو شہر قرطبہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ مدنیة الزہرا کے سائن شہر ہی کے وسط سے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ''مدینة الزہرائ'' ایک چھوٹا سے شاہی شہر تھا جو خلفاء قرطبہ اور اُن کے متعلقین کی رہائش کے لیے بنایا گیا تھا یہ شہر ایک بڑی پہاڑی اور اُس کے دامن میں واقع ہے شہر کے شورو غل زندگی سے دُور یہ ایک خوبصورت اَور پُر سکون جگہ ہے اِس شہر کی تعمیر ٣٢٥ھ میں خلیفہ عبدالرحمن الناصر نے کی تھی اِس شہر کا نام خلیفہ کی ملکہ ''زہرا'' کے نام پر رکھا گیا۔ مدنیة الزہرا کے اکثر حصے کی تعمیر پچیس سال میں خلیفہ ناصر اور کچھ حصے خلیفہ الحکم ثانی کے زمانے میں مکمل ہوئے۔ یہ اپنے وقت میں دُنیا کا سب سے حسین و جمیل شہر سمجھا جاتا تھا۔ مدنیة الزہرا کا قصرِ شاہی اپنے حسن و جمال شان وشوکت کے اعتبار سے دُنیا بھر میں اپنی مثال آپ تھا اِس محل کا ایک ایوان ''قصر الخلفائ'' کہلاتا تھا اِس کی چھتیں اور دیواریں سونے اور شفاف مرمر کی تھیں مدنیة الزہرا میں مصنوعی دریا بھی بنائے گئے تھے اَور جانوروں کے باغ بھی جن میں وہ اپنے قدرتی ماحول کے ساتھ رہتے تھے ۔قدرت کا کرشمہ دیکھیے یہ عظیم الشان شہر جس کی تکمیل میں کم و بیش چالیس سال لگے تھے تکمیل کے بعد صرف پینتیس سال اپنی بہار دِکھا سکا۔ ٣٩٨ھ میں ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس سے یہ خوبصورت شہر خاک کا ڈھیر بن گیا اور لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بن گیا یہ وہی شہر تھا جو کبھی بادشاہوں، شہزادوں اور حسین و جمیل پریوں اور کنیزوں کا مسکن تھا اب ایک جنگل بیابان کا منظر پیش کر رہا تھا کسی شاعر نے یہی منظر دیکھ کر کہا تھا قلت یومًا لدار قوم تفانو این سکانک العزاز علینا؟ فاجابت ھنا اقاموا قلیلًا ثم ساروا و لست اعلم اینا؟