ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
|
گئی ہے لہٰذا اِن مبارک دِنوں میں غیر ضروری تعلقات سے ہٹ کر اللہ جل شانہ کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کرنی چاہیے اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا اور ذکر و فکر، تسبیح و تلاوت، صدقہ، خیرات اور نیک اعمال میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا اور گناہوں سے بچنا چاہیے نیز روزوں کا بھی جہاں تک ہوسکے اہتمام کرنا چاہیے۔ ٩ ذی الحجہ کے روزے کے فضائل و احکام : احادیث میں ٩ ذی الحجہ کے روزے کی بیش بہا فضیلت بیان کی گئی ہے، ایک روایت میں ہے : عَنْ اَبِیْ قَتَادَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ قَالَ '' یُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِیَةَ وَالْبَاقِیَةَ '' (مسلم،مسند احمد، الترغیب و الترہیب ج ٢ ص ٦٧ تا ٦٩) ''حضرت ابوقتادة رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ سے عرفہ (یعنی ٩ ذی الحجہ) کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا آپ ۖنے فرمایا (٩ ذی الحجہ کا روزہ رکھنا) ایک سال گزشتہ اَور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔'' تشریح : گناہوں کی دو قسمیں ہیں ایک کبیرہ (بڑے) گناہ دُوسرے صغیرہ (چھوٹے) گناہ، حدیث میں جن گناہوں کی بخشش کا ذکر ہے اُن سے صغیرہ گناہ مراد ہیں مگر صغیرہ گناہوں کی معافی بھی کوئی معمولی نعمت نہیں اور کبیرہ گناہوں کے بارے میں اُصولی و تحقیقی بات یہ ہے کہ وہ بغیر توبہ و ندامت کے معاف نہیں ہوتے (البتہ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ رحمت کا معاملہ فرمادیں تو الگ بات ہے) اور حقوق العباد حق ادا کیے بغیر یا صاحب ِحق کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتے (معارف القرآن ج ٢، سورہ نساء آیت ٣١) اور سچی توبہ کے تین رُکن ہیں (١)اوّل یہ کہ اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری کا ہونا، حدیث میں اِرشاد ہے: اِنَّ التَّوْبَةَ مِنَ الذَّنْبِ اَلنَّدَمُ یعنی گناہ سے توبہ ندامت کا نام ہے (٢) دُوسرا رُکن توبہ کا یہ ہے کہ جو گناہ کیا ہے اُس کو فورًا چھوڑدے اور آئندہ بھی اُس سے باز رہنے کا پختہ عزم و اِرادہ کرے (٣) تیسرا رکن یہ ہے کہ فوت شدہ چیزوں کی تلافی کی فکر کرے یعنی جو گناہ سرزد ہوچکا ہے اُس کی جتنی تلافی اُس کے قبضہ میں ہے اُس کو پورا کرے خواہ وہ اللہ کے حقوق ہوں جیسے قضاء نمازیں، روزے، زکوٰة، حج، قربانی، صدقۂ فطر، قسم کا