ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
|
جان ہوتی ہے اور جس کا آغاز میں خود اپنے آپ سے نہ کر رہا ہوں۔ یاد رکھو! اگر آج کی مشقت پر تم نے صبر کر لیا تو طویل مدت تک لذت و رَاحت سے لطف اَندوز ہو گے۔اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت تمہارے ساتھ ہے، تمہارا یہ عمل دُنیا و آخرت دونوں میں تمہاری یاد گار بنے گا۔ اور یاد رکھو کہ جس بات کی دعوت میں تمہیں دے رہا ہوں اِس پر پہلا لبیک کہنے والا میں خود ہوں۔ جب دونوں لشکر ٹکرائیں گے تو میرا عزم یہ ہے کہ میرا حملہ اِس قوم کے سرکش ترین راڈرک پر ہو گا اور اِنشاء اللہ میں اپنے ہاتھ سے اُسے قتل کروں گا۔ تم میرے ساتھ حملہ کرو، اگر میں راڈرک کی ہلاکت کے بعد ہلاک ہوا تو راڈرک کے فرض سے تمہیں سبکدوش کر چکا ہوں گا، اور تم میں ایسے بہادر اور ذی عقل افراد کی کمی نہیں جن کو تم اپنی سربراہی سونپ سکو اور اگر میں راڈرک تک پہنچنے سے پہلے ہی کام آ گیا تو میرے اِس عزم کی تکمیل میں میرے نیابت کرنا تمہارا فرض ہو گا۔ تم سب مل کر اُس پر حملہ جاری رکھنا اور پورے جزیرے کی فتح کا غم کھانے کی بجائے اُس ایک شخص کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لینا تمہارے لیے کافی ہو گا کیونکہ دشمن اِس کے بعد ہمت ہار بیٹھے گا۔ '' طارق بن زیاد کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی کشتیاں جلا دی تھیں تا کہ فتح یا موت کے سوا کوئی تیسرا رَاستہ باقی نہ رہے اِس کو اقبال مرحوم نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے : طارق چوں برکنارہ اُندلس سفینہ سوخت گفتند کار توبہ نگاہ خرد خطاست دُوریم اَز سواد وطن باز چوں رسیم؟ ترک سبب زرُوئے شریعت کجا رَواست خندید و دست خویش بہ شمشیر برد و گفت ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست طارق نے جب اُندلس کے ساحل پر اپنی کشتی جلائی تو لوگوں نے کہا کہ عقل کی نگاہ میں تمہارا یہ عمل بڑی غلطی ہے۔ ہم لوگ اپنے وطن کی سر زمین سے دُور ہیں، اب وطن کیسے پہنچیں گے؟ اسباب کو ترک کرنا تو شریعت کی رُو سے بھی جائز نہیں۔ طارق جواب میں مسکرایااَور اپنا ہاتھ تلوار تک لے جا کر بولا۔ ہر ملک ہمارا