ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
|
مِّنْہَا اَرْبَعَة حُرُم ثَلٰث مُّتَوَالِیَات ذُوالْقَعْدَةِ وَذُوالْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادٰی وَشَعْبَانَ ۔ (صحیح بخاری فی التفسیر وبدء الخلق والتوحید والاضاحی واللفظ لہ۔ مسلم ومسند احمد) ''حضرت ابن ِابی بکرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے (حجة الوداع کے موقع پر اپنے خطبہ میں) اِرشاد فرمایا کہ (اِس وقت) زمانہ گھوم پھر کر اُسی حالت پر آگیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا (یعنی اَب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی زیادتی نہیں ہے جو جاہلیت کے زمانے میں مشرک کیا کرتے تھے۔ اب وہ ٹھیک ہوکر اُس طرز پر آگئی ہے جس پر ابتداء اَور اصل میں تھی لہٰذا) ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں چار مہینے حرمت و عزت والے ہیں جن میں تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور ایک رجب کا مہینہ ہے جوکہ جمادی الاخریٰ اَور ماہ شعبان کے درمیان آتا ہے۔ '' تشریح : اِس آیت ِشریفہ اور حدیث شریف سے واضح ہوا کہ اِن مہینوں کی جو ترتیب اور اِن مہینوں کے جو نام (یعنی محرم، رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ) اِسلام میں معروف و مشہور اَور رائج ہیں وہ اِنسانوں کے اپنے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ربُّ العالمین نے جس دن آسمان و زمین پیدا کیے تھے اُسی دن یہ ترتیب اور یہ نام اور اِن کے ساتھ خاص مہینوں کے خاص احکام بھی متعین فرمادیے تھے، اُن احکام کو اِن مہینوں کے مطابق رکھنا ہی دین مستقیم ہے اور اِن میں اپنی طرف سے کمی زیادتی اور ترمیم و تبدیلی کرنا فہم کے ٹیڑھے اور سوچ کے ناقص ہونے کی نشانی ہے اور اِن مہینوں میں اِن کے متعینہ احکام و احترام کی خلاف ورزی کرنا، اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کو چھوڑدینا، کوئی گناہ کرنا اور عبادت میں کوتاہی کرنا اپنے اُوپر ظلم ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں سال کے بارہ مہینے مانے جاتے تھے اور اُن میںسے چار مہینے ''یعنی ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اَور رجب '' بڑے مبارک اور فضیلت و عظمت، ادب و شرافت، اعزاز و اِکرام اور احترام والے مہینے سمجھے جاتے تھے، تمام نبیوں کی شریعتیں اِس بات پر متفق ہیں کہ اِن چار مہینوں میں ہر عبادت