ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
|
اَور وعدہ کیا ہم نے موسی سے تیس رات کا اَور پورا کیا اُن کو اَور دس سے ،پس پوری ہوگئی تیرے رب کی چالیس راتیں۔ موسی علیہ السلام تو حکم ِ خدا وندی کی بناء پر کوہ ِ طور پر رہے اُدھر یہ ہوا کہ سامری نامی ایک شخص نے سونے یا چاندی کا ایک بچھڑا بناکر اُس میں وہ مٹی ڈال دی جو اُس نے حضرت ِ جبرئیل علیہ السلام کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے اُٹھاکر اپنے پاس محفوظ رکھی ہوئی تھی اِس طرح اُس بچھڑے میں جان پڑ گئی اَور بنی اسرائیل کے جہلاء نے اُس کی پرستِش شروع کر دی۔ (٢) قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَة عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً ج یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَا تَأْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَo (سُورة المائدہ آیت ٢٦) فرمایا تحقیق وہ زمین حرام کی گئی ہے اُن پر چالیس برس سرمارتے پھریں گے ملک میں، سو تم اَفسوس نہ کر نافرمان لوگوں پر۔ بنی اسرائیل کو عمالقہ سے جہاد کا حکم ہوا تھامگر اُنہوں نے حکم عدولی کی، بے اَدبی اَور گستاخی کے ساتھ پیش آئے جس کی سزا اُنہیں یہ ملی کہ اَرض ِ مقدس شام و فلسطین اُن پر چالیس سال تک کے لیے حرام قرار دے دی گئی اَور وہ پورے چالیس برس تک صحراء سینا (وادی تیہ ) میں دیوانوں کی طرح سر گرداں پھرتے رہے۔ (٣) وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا ط حَمَلَتْہُ اُمُّہ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا ط وَحَمْلُہ وَفِصٰلُہ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا ط حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً لا قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ط اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o (سورة الاحقاف آیت ١٥) اَورہم نے حکم کردیا اِنسان کو اپنے ماں باپ سے بھلائی کا، پیٹ میں رکھا اُس کو اُس کی ماں نے تکلیف سے، اَور جنا اُس کو تکلیف سے، اَور حمل میں رہنا اُس کا اَور دُودھ چھوڑنا تیس مہینے میں ہے یہاں تک کہ جب پہنچا اپنی قوت کو اَور پہنچ گیا چالیس برس کو، کہنے لگا اے رب میرے میری قسمت میں کر کہ شکر کروں تیرے احسان کا جو تو نے مجھ پر کیا اَور