ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
لیتے ہیں۔ جب رسول اللہ ۖ نے اپنا کلام پورا فرمالیا تو میرے آنسو بالکل خشک ہوگئے حتی کہ میںنے محسوس کیا کہ آنکھوں میں ایک قطرہ بھی نہیں ہے ۔ میں نے اپنے والد حضرت حضرت ابوبکر صدیق سے کہا کہ آپ رسول اللہ ۖ کی بات کا جواب دیجئے اِس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا کہ میں کیا کہہ سکتا ہوں پھر میں نے اپنی والدہ سے عرض کیا کہ آپ جواب دیجئے ۔اُنہوں نے بھی عذر کردیا کہ میںکیا کہہ سکتی ہوں۔اب مجبور ہو کر مجھے ہی بولنا پڑا میں ایک کم عمر لڑکی تھی اَب تک قرآن بھی زیادہ نہیں پڑھ سکی تھی (اُس وقت اِس رنج وغم اور انتہائی صدمہ میں جبکہ اچھے اچھے عقلاء کے لیے بھی معقول بات کرنا آسان نہیں ہوتا حضرت صدیقہ نے جو کچھ فرمایا وہ اُن کی ہوش مندی عقل مندی اور ہمت و متانت کا ایک نمونہ ہے)۔ حضرت عائشہ آنحضرت ۖ اَور اپنے والدین سے مخاطب ہوتے ہوئے عرض کیا کہ بخدا مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ آپ حضرات نے اِس بات کو سنا اورسنتے رہے ہیںیہاں تک کہ آپ کے دِل میں یہ بات بیٹھ گئی اَور آپ نے اِس کی (عملاً ) تصدیق کر دی ۔ اَب اگر میں کہتی ہوں کہ میں اِس سے بری ہوں تو آپ حضرات میری تصدیق نہ کریں گے اَور اگر میں ایسے کام کا اعتراف کر لوںجس سے میرا بری ہونااللہ جل شانہ'کومعلوم ہے تو آپ حضرات مان لیں گے ۔ واللہ! اَب میں اپنے اور آپ حضرات کے بارے میں کوئی مثال بجز اِس کے نہیں پاتی جو یوسف علیہ السلام کے والد نے اپنے بیٹوںکی غلط بات سن کر فرمائی تھی کہ میں صبرِجمیل اختیار کرتا ہوں اَور اللہ سے اِس معاملے میں مدد طلب کرتا ہوں جو تم بیان کر رہے ہو ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اِتنی بات کہہ کر میں وہاں سے ہٹ کر اپنے بستر پر جا لیٹی ، واقعہ بیان کر تے ہوئے فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے یقین تھا کہ جیسا کہ میں فی ا لواقع بری ہوں اللہ تعالیٰ ضرور میری براء ت کا اظہار فرمادیں گے لیکن یہ ذرا بھی خیال نہ تھا کہ میرے اِس معاملہ میں کلام اللہ کی آیات نازل ہوں گی جو ہمیشہ تلاوت کی جائیں گی کیونکہ میں اپنی حیثیت اِس سے بہت کم سمجھتی تھی ۔مجھے یہ اُمید تھی کہ آنحضرت ۖ کوئی ایسا خواب دیکھ لیں گے جس میںاللہ جل شانہ' کی جانب سے میری براء ت ظاہر کر دی جائے گی۔(جاری ہے)