ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
|
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی جگہ واپس آ کر قافلہ کو نہ پایا ۔ میں قافلہ کے پیچھے دوڑنے یا اِدھر اُ دھر تلاش کرنے کے بجائے اپنی جگہ چادر اَوڑھ کر بیٹھ گئی اور خیال کیا کہ جب آنحضرت ۖ کو یہ معلوم ہو گا کہ میں ہودج میں نہیں ہوں تو مجھے اِسی جگہ تلاش فرمالیں گے ۔ اگر اِدھر اُدھر کہیںاَور جگہ جاتی ہوں تو تلاش میں مشکل ہوگی۔ اِس لیے اپنی جگہ چادر میںلپٹ کر بیٹھ گئی آخر رات کا وقت تھا نیند کا غلبہ ہوا وہیں لیٹ کر آنکھ لگ گئی۔ صَفْوَان بن مُعَطّل رضی اللہ عنہ کو آنحضرت ۖ نے اِس خدمت کے لیے پہلے سے مقرر فرما رکھا تھا کہ وہ قافلہ کے پیچھے رہیں اور قافلہ روانہ ہونے کے بعدگری پڑی جو کوئی چیز رہ گئی ہو اُس کو اُٹھا کر محفوظ کر لیاکریں ۔ اِس منزل سے پہلے جس جگہ منزل کی تھی وہ وہاں سے آ رہے تھے۔سفر کرتے ہوئے صبح کے وقت اُس جگہ پہنچے جہاںمیں موجود تھی ۔ ابھی روشنی پوری نہ ہوئی تھی اُنہوں نے دُور سے اِتنا دیکھا کہ کوئی آ دمی پڑا سو رہا ہے ۔ قریب آئے تو اُنہوںنے مجھے پہچان لیا کیونکہ اُنہوں نے پرد ہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھا تھا۔ مجھے پہچان کر (اور جنگل بیابان میں تنہا دیکھ کر )اُنہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اِس کے پڑھنے کی آواز کان میں پہنچی تو میری آنکھ کھل گئی ۔میں نے فورًا اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھک لیا۔خُدا کی قسم اُنہوں نے مجھ سے ایک بات بھی نہیں کی اور نہ میں نے کوئی کلمہ سوائے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کے سُنا۔اِس کے بعد حضرت صفوان رضی اللہ عنہ اپنی اُونٹنی میرے قریب لائے اور اُونٹنی بٹھا دی اور پشت پھیر کرکھڑے ہوگئے۔ میں اُونٹنی پر سوار ہو گئی۔ اِس کے بعد اُونٹنی کی نکیل پکڑے ہوئے آگے آگے چلتے رہے حتی کہ دوپہر کے وقت وہاں پہنچ گئے جہاں لشکر ہم سے پہلے پڑاؤ ڈال چکا تھا بس کچھ لوگوں نے بُری بات کی تہمت لگا دی اَور اِسے اُچھالنا شروع کر دیا تہمت کے لگانے اَور اُچھالنے میں سب سے بڑا حصہ عبداللہ بن اُبَیْ ابنِ سَلُول کا تھا ( جو منافقوں کا سردار تھا ) ۔ لشکر وہاں سے روانہ ہوا اور سفر سے واپس لشکر مدینہ منورہ پہنچا مدینہ پہنچ کر میں ایک ماہ تک بیمار رہی۔ اِس عرصے میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا لوگوں میں چرچا ہوتا رہا اور مجھے کچھ خبرنہ ہوئی ۔اَلبتہ اِس عرصہ میں یہ بات کھٹکتی تھی کہ حضور ِانور ۖ اِس سے قبل میری بیمای میں جس لطف و مہربانی کا برتاؤ فرماتے تھے آج کل اُس لطف و مہربانی کا اَنداز نہیں ہے بس یہ ہوتا تھا کہ آپ گھر میں تشریف لاتے اَور سلام فرماتے