ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2009 |
اكستان |
|
کہ فرقہ ٔناجیہ وہ لوگ ہیںجو اُس راہ پر چلیںجس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ تو یہ سب باوجود اختلاف کے ایک ہی فرقہ ہیںجوخدا کے نزدیک نجات پانے والا ہے ۔ اور یہ سب ہدایت پر ہیںاور اِن کا اختلاف رحمت ہے تو جو شخص اِن دو میںسے کسی کو بھی باطل قرار دینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے علم کا ثواب ضائع کررہا ہے خواہش نفس کی پیروی کر رہا ہے اور تعدّی کرتا ہے ۔ ابن ِتیمیہ نے اپنے فتاوی میںاِن لوگوں کے بارے میںکہ جن کی رائے ہے کہ جہری نمازوں میںامام کے پیچھے پڑھنا چاہیے رَد کرتے ہوئے لکھا ہے : ابوداو'د نے کہا میںنے محمد بن یحییٰ بن فارس سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ فَانْتَھَی النَّاسُ (لوگ رُک گئے ) یہ زہری کی بات ہے( نہ کہ حدیث)اور امام بخاری سے بھی اِسی طرح نقل کیا گیا ہے (کہ اُنہوں نے بھی یہی کہا ہے ) اور یہ جب کلام ِزہری ہے تو یہ نہایت ہی قوی دلیل ہے کہ صحابۂ کرام جہر کی صورت میںجناب رسول اللہ ۖ کے ساتھ نہیںپڑھا کرتے تھے کیونکہ زہری اپنے زمانہ کے اُن سب سے بڑے لوگوں میںسے ہیں جو عالم بالسنت تھے اور صحابۂ کرام کا رسول اللہ ۖ کے پیچھے قراء ت کرنا اگر شریعت میںہوتا واجب یا مستحب اِن میں سے کسی بھی حیثیت سے تو یہ اُن عام احکام میںہوتا جسے عام صحابۂ کرام اَور تابعین بِاِحْسَانْ جانتے ہوتے تو زہری ضرور اِس مسئلہ سے سب سے زیادہ واقف ہوتے، اگر زہری سرے سے یہ مسئلہ کبھی بیان ہی نہ کرتے تب بھی یہ قراء ت خلف الامام کی نفی کی دلیل ہوتی چہ جائیکہ جب زہری قطعی طور پر یہ بتلارہے ہوں کہ صحابۂ کرام جناب رسول اللہ ۖ کے پیچھے جہری نمازوں میں نہیں پڑھا کرتے تھے۔'' (فتاویٰ کبرٰی ابنِ تیمیہ ص ١٧١ ج٢) ابن تیمیہ نے ایک مقام پر لکھا ہے : ''نیز جہر سے مقصود یہ ہے کہ مقتدی غور سے سُنیں اِسی لیے (جن ائمہ کے نزدیک آمین بالجہر ہوتی ہے وہ) امام کے پڑھنے پر جہری میں آمین کہتے ہیں نہ کہ سری میں۔ تو جب وہ امام کی طرف سے ہٹ کر اپنے پڑھنے میں مشغول ہوگا تو (گویا اللہ تعالیٰ نے) امام کو