ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
اُن کو تسلی دی۔ اشعار تو اہل ِ عرب کی گھٹی میں ہیں بچہ بچہ یہاں تک کہ عورتیں بھی عرب میں شاعر ہوئی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے اُس بدوی(دیہاتی شخص) سے بہتر کسی نے تسلی نہیں دی چنانچہ کہتا ہے : اِصْبِرْ نَکُنْ بِکَ صَابِرِیْنَ فَاِنَّمَا صَبْرُ الرَّعِیَّةِ بَعْدَ صَبْرِ الرَّأْسِ (اے ابن ِعباس رضی اللہ عنہما) آپ صبر کیجیے تاکہ ہم بھی آپ کی وجہ سے صابر بنیں مطلب یہ کہ آپ مقتداء ہیں آپ کے اَفعال کی سب اِتباع کرتے ہیں پس ایسے حوادِث میں آپ صابر رہیں تو ہم مصیبت کے وقت میں صابر رہا کریں گے آپ نے صبر نہ کیا تو عوام بھی صبر نہ کریں گے۔ سبحان اللہ ! کیسے اچھے عنوان سے صبر کی ترغیب دی۔ آگے کہتا ہے : خَیْر مِّنَ الْعَبَّاسِ اَجْرُکَ بَعْدَہ وَاللّٰہ خَیْر مِّنْکَ لِلْعَبَّاسِ ''آپ کے لیے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے زندہ رہنے سے وہ اَجر بہتر ہے جو اُن کے وصال پر آپ کو ملے گا کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اگر زندہ رہتے تو بہت سے بہت وہ آپ کو ملتے ۔اور آپ کے لیے ثواب اُن سے بہتر ہے۔'' کیونکہ ثواب کی حقیقت ہے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی تو یوں کہیے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وصال پر صبر کرنے سے خدا آپ کو ملا۔ اور یقینًا اللہ تعالیٰ سب سے بہتر ہے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لیے خدا آپ سے بہتر ہے کیونکہ وہ مر کر خدا کے پاس پہنچ گئے اگر نہ مرتے تو دُنیا میں رہتے جس میں رویت ِ الٰہی ( یعنی اللہ کا دیدار) نہیں ہوسکتا۔ (اَلْجَبْرُ بِالصَّبْرِ ملحقہ فضائل صبر وشکر) ۔(جاری ہے)