ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
گی تب طلاق پڑھ جائے گی اگر نہ کرے گی تو نہ پڑے گی اور طلاقِ رجعی پڑے گی جس میں بے نکاح بھی روک رکھنے کا اختیار ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی کنایہ لفظ کہا ہو جیسے یوں کہے اگر فلانا کام کرے تو مجھ کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں تو جب وہ کام کرے گی تب طلاقِ بائن پڑے گی بشرطیکہ مرد نے اُس لفظ کے کہتے وقت طلاق کی نیت کی ہو۔ مسئلہ : یوں کہا اگر فلاں کام کرے تو تجھ کو دو طلاق یا تین طلاق تو جتنی طلاق کہیں اُتنی پڑیں گی مثلاً شوہر نے بیوی کویوں کہا کہ اگر تو فلاں سے( مثلاً اپنے باپ سے ) ملی تو تجھے تین طلاقیں ہیں۔ بعد میں شوہر پشیمان ہے اور بیوی کے لیے اپنے باپ سے ملے بغیر بھی چارہ نہیں تو اِس سے خلاصی کی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک طلاق جو کہ بہتر ہے کہ بائنہ ہو دے دے(مثلاً یوں کہہ دے کہ تجھے ایک طلا قِ بائن ہے) اِس کے بعد عورت طلاق کی عدت گزارے ۔ جب عدّت مکمل ہوجائے اُس وقت اپنے باپ سے مل لے۔ اِس کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے نکاح کر لیں، نکاح کے بعد عورت اپنے باپ سے ملے گی تو مزید طلاق نہ پڑے گی۔ مسئلہ : اپنی بیوی سے کہا اگر تو اُس گھر میں جائے گی تو تجھ کو طلاق ہے۔ وہ چلی گئی اَور طلاق پڑگئی۔ پھر عدّت کے اندر اندر شوہر نے روک رکھا یا عدّت گزر گئی تھی دوبارہ نکاح کر لیا تو اَب پھر گھر جانے سے طلاق نہ پڑے گی۔ البتہ اگر یوں کہا جتنی مرتبہ اُس گھر میں جائے ہر مرتبہ تجھ کو طلاق یا یوں کہا ہو جب کبھی تو گھر میں جائے ہر مرتبہ تجھ کو طلاق ۔تو اِس صورت میں عدّت کے اَندر روک لینے یا عدّت کے بعد دوبارہ نکاح کر لینے کے بعد دُوسری مرتبہ گھر میں جانے سے دُوسری طلاق ہوگئی۔ پھر عدت کے اَندر یا تیسرے نکاح کے بعد اگر تیسری دفعہ گھر میں جائے گی تو تیسری طلاق پڑ جائے گی۔اَب تین طلاق کے بعد اِس سے نکاح دُرست نہیں۔ البتہ اگر دُوسرا خاوند کر کے پھر اِسی مرد سے نکاح کرے تو اَب گھر میں جانے سے طلاق نہ پڑے گی۔ مسئلہ : کسی نے اپنی بیوی سے کہا اگر تو فلاں کام کرے تو تجھ کو طلاق۔ ابھی اُس نے وہ کام نہیں کیا تھا کہ اُس نے اپنی طرف سے ایک اور طلاق دیدی اور چھوڑدیا اور عدت کے بعد پھر اِسی عورت سے نکاح کر لیا اور اِس نکاح کے بعد اَب اِس عورت نے وہی کام کیا تو پھر طلاق پڑگئی۔البتہ اگر طلاق پانے اور عدت گزر