ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
کیوں کی؟ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آنے والے کے دِل میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور اُس کے پاس آنے سے گھبراتا ہے اور قطع رحمی کرنے لگ جاتا ہے۔ ٦۔ زیادہ تکلُّف کرنا : بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی رشتہ دار ملنے آتا ہے تو اُس کے اکرام و تواضع میں میزبان حد کردیتا ہے اور بہت سارا مال ضائع کردیتا ہے جبکہ اُس کی مالی استطاعت اِتنی نہیں ہوتی چنانچہ رشتہ دار اُس کے پاس آنے سے کتراتے ہیں کہ اُس کو نقصان سے بچائیں۔ ٧۔ مہمانوں کے ساتھ بے توجہی : بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب اُن کے پاس رشتہ دار آتے ہیں تو میزبان کی طرف سے توجہ نہیں ملتی ،نہ اُن کی بات غور سے سنتا ہے، نہ محبت کا اظہار کرتا ہے، نہ اُن کے آنے پر شکریہ اَدا کرتا ہے، نہ خوش ہوتا ہے، ترش رُوئی اور سرد مہری سے پیش آتا ہے جس کی وجہ سے مہمانوں کے دِل میں اُس کے دیدار کا شوق کم ہوجاتا ہے اور یہ روِش رفتہ رفتہ قطع رحمی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ٨۔ بخل وکنجوسی : بعض صاحب ِ ثروت واستطاعت ہونے کے باوجود اپنے رشتہ داروں سے دُور بھاگتے ہیں اِس لیے نہیں کہ اُن میں تکبر ہوتا ہے بلکہ اِس وجہ سے کہ اگر رشتہ دار آجائیں تو قرض پیسے مانگیں گے اور دیگر مطالبات کریں گے، بجائے اِس کے کہ گھر کے دروازے رشتہ داروں کے لیے کھلے رکھیں، اُن کی مہمان نوازی کرے، اپنی استطاعت کے مطابق اُن کی خدمت کرے اور جو استطاعت سے باہر ہو اُس سے معذرت کرے، اِن سے اعراض برتتا ہے، قطع تعلقی اختیار کرتا ہے، اُنہیں تنہا چھوڑ دیتا ہے کہ کہیں رشتہ دار مطالبوں سے اُس کا مال کم نہ کردیں۔ آخر ایسے مال کا کیا فائدہ ایسی جاہ پے کرنا کیا جس سے رشتہ دار محروم ہوں۔ ٩۔ تقسیم ِ میراث میں تاخیر کرنا : بعض اَوقات رشتہ داروں میں لا پرواہی یابغض و عناد کی وجہ سے میراث کی تقسیم نہیں ہوتی، پھر جوں جوں تقسیم ِ میراث میں تاخیر ہوتی چلی جاتی ہے تو رشتہ داروں میں بغض وعداوت بڑھتی چلی جاتی ہے، ایک اپنا حق مانگتا ہے کہ کچھ اِستفادہ کرے، دُوسرا وہ ہوتا ہے جو خود بھی تقسیم ِ میراث سے پہلے مرجاتا ہے، اَب بعد والوں کے لیے ایک مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے ورثاء کی تعیین ، اُن کے حصول کو معلوم کرنا، چنانچہ ایک دُوسرے پر بدگمانی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اِس سے اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں، ہمدردی بکھر جاتی ہے، اتفاق واتحاد ختم ہوجاتا ہے چنانچہ اِن سب باتوں کا نتیجہ قطع رحمی کی صورت میں نکلتا ہے۔