ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
١۔ بعض لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی جانتے تک نہیں، نہ مال وجاہ کے ذریعہ سے اور نہ اَخلاق وآداب کے ذریعہ سے، مہینوں کے مہینے اور سالوں کے سال گزر جاتے ہیں لیکن نہ رشتہ داروں کی خبر گیری کرنے جاتے ہیں، نہ اُن کے سامنے اپنی محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں نہ کوئی ہدیہ دیتے ہیں بلکہ اُن سے کسی تکلیف ہٹانے میں بعض اَوقات تو اُن کے ساتھ عملی طورپر برا سلوک کرنے پر اُتر آتے ہیں۔ ٢۔ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو رشتہ داروں کے ساتھ نہ اُن کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور نہ غم میں، نہ اُن کی غمخواری کرتے ہیں نہ اُن میں سے محتاج وفقیر پر صدقہ کرتے ہیں بلکہ صدقات ِواجبہ وخاصہ میں بھی غیروں کو رشتہ داروں پر مقدم رکھتے ہیں۔ ٣۔ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو رشتہ داروں کے ساتھ اِس لیے صلہ رحمی کرتے ہیں کہ وہ بھی اِن کے ساتھ صلہ رحمی کر تے ہیں، اور اگر وہ قطع رحمی کریں تو یہ بھی قطع رحمی کریں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صلہ رحمی ہی نہیں ہے بلکہ نیکی کا بدلہ نیکی کے ساتھ دینا ہے اور ایسا تو صرف رشتہ داروں کے ساتھ نہیں کیا جاتا بلکہ غیر رشتہ داروں کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ صلہ ٔرحمی کرنے والا تو وہ شخص ہے جو رشتہ دار سے صلۂ رحمی صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرے چاہے وہ رشتہ دار صلہ ٔرحمی کرے یا قطع رحمی۔ نبی کریم ۖ نے اِرشاد فرمایا : لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلھا۔( بخاری شریف) '' یعنی وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں کہلائے گا جو صلہ رحمی کے بدلہ میں صلہ رحمی کرے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص ہے جس سے جب قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔'' ٤۔ قطع رحمی کی صورتوں میں سے یہ بھی ہے کہ بعض صاحب ِ علم داعی پرایوں اور غیروں کو دعوت دینے پر تو حریص ہوتے ہیں اَور رشتہ داروں سے غافل ہوتے ہیں یا غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے رشتہ دار زیادہ حقدار ہیں اِس بات کے کہ اُنہیں بھلائی کی دعوت دی جائے، باری تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے اپنے محبوب پیغمبر کو ''وَاَنْذِرْ عَشِےْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ '' ( سُورة الشعراء ٢١٤) کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔ ٥۔ قطع رحمی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ بعض اَوقات ایک بڑے خاندان کے فرد کو اللہ تعالیٰ نے