ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
''آج تو مزا آگیا میں اپنی گاڑی ورکشاپ ٹھیک کروانے گیا ہواتھاوہاں ٹی وی پر یہ سارا منظر دیکھتا رہا پولیس کے جوانوں کا فرار دیکھ کر جی خوش ہو گیا کوئی پتلون اور بنیان پہنے دوڑا جا راہا تھا کوئی احاطہ کی دیوار پر چڑھ کر گندے نالہ میں چھلانگ لگا رہا تھا پیچھے سے اُس کی پتلون کیچڑ سے بھری ہوئی تھی اور دوڑا جارہا تھا ۔یہ کہہ کر وہ پھر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ میں نے پوچھا کہ تم اِس پر اِتنا خوش کیوں ہورہے ہو اور اِس میں ہنسنے کی کیا بات ہے، کہنے لگا یہ بڑے ظالم لوگ ہیں آج ہمارا جی ٹھنڈا ہوا ہے ۔پھر کہنے لگا ورکشاپ کے کارکن اور اُن کا سپر وائزر بھی یہ مناظر دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ پھر کہنے لگا کہ سپر وائزر نے اپنا واقعہ سنایا کہ میں کہیں جا رہا تھا تو اچا نک مجھے کسی نے پیچھے سے آواز دی میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ کہنے لگا کہ تمہارا موبائل پیچھے گرا ہوا ہے میں نے اپنی جیب پر ہاتھ مار ا اور ٹٹول کر جواب دیا کہ میرا موبائل تو جیب میں ہے پھر وہ لڑکے جلدی سے میرے طرف بڑھے اور پستول دکھا کر موبائل چھین کر فرار ہوگئے میں دیکھتا ہی رہ گیا کہ یہ کیا ہوا ۔اچانک موبائل پولیس کی گاڑی نظر آئی میں نے اُن کو بتلایا کہ میرے ساتھ ایسا معاملہ ہوا ہے اور وہ اِدھر کو بھاگے ہیں تو پولیس والے یہ کہہ کر چلتے بنے کہ تم موبائل اپنے پاس رکھتے ہی کیوں ہو! پھر اُسی ڈرائیور نے اپنا چشم دیدواقعہ سنایا کہ جب میں آج گاڑی ورکشاپ لے جا رہا تھا تو راستہ میں ایک موٹر سائیکل کا حادثہ ہو چکا تھا اُس کے پاس جواں سال خاتون کی لاش پڑی تھی خاتون کا شوہر شیرخوار بچہ کو گود میں لیے کھڑارو رہا تھا اور پولیس کو بتلا رہا تھا کہ ایسے ایسے گاڑی اُس کوٹکر مار کر بھاگ گئی ہے، پولیس والے اُس کی مدد اور دلاسہ دینے کے بجائے اُلٹا اُسی کو ڈانٹنے لگے کہ تم لوگ خود غلط چلتے ہو پھر جب حادثہ ہوجاتا ہے تو رونے پیٹنے لگتے ہو۔ ڈرائیور کہنے لگا کہ ہمیں بڑا دُکھ ہوا ،بیوی کی لاش سامنے پڑی تھی معصوم بچی گود میںبِلک رہی تھی اور پولیس اُس کے ساتھ یہ سلوک کر رہی تھی۔