ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
دُنیا کدھر جارہی ہے؟ ( حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری ، اِنڈیا ) طارق ابن شہاب کہتے ہیں کہ ہم صحابی ٔ جلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود ص کی مجلس میں حاضر تھے اچانک ایک شخص نے آکر خبر دی کہ مسجد میں جماعت کھڑی ہوگئی، یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن مسعود صکھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ چل دیے، جب ہم لوگ مسجد میں پہنچے تو لوگ رکوع میں جاچکے تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود ص بھی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے اور ہم نے بھی ایسے ہی کیا، پھر سجدہ اور دیگر اَرکان ادا کرکے نماز پوری کی، نماز سے فراغت کے بعد ایک شخص تیزی سے آپ کے سامنے سے یہ کہتے ہوئے گذرا: ''عَلَیْکَ السَّلَامُ یَا اَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰن'' (اے ابو عبد الرحمن! (یہ عبد اللہ بن مسعود ص کی کنیت ہے) سلام قبول کیجئے) اُس شخص کی طرف سے سلام کا یہ اَنداز دیکھ کر حضرت عبد اللہ بن مسعود ص نے اِرشاد فرمایا: ''صَدَقَ اللّٰہُ وَبَلَّغَ رَسُوْلُہ'' (اللہ نے سچ فرمایا اور اُس کے پیغمبر نے اللہ کا پیغام صحیح صحیح پہنچایا) طارق کہتے ہیں کہ نماز سے فراغت کے بعد ہم لوگ پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود ص کی مجلس کی طرف لوٹ آئے، حضرت تو گھر میں تشریف لے گئے اور ہم باہر بیٹھے رہے اِسی دوران یہ ذکر چھڑا کہ کیا آپ لوگوں نے مسجد میں مذکورہ شخص کے سلام کے جواب میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ص کے الفاظ: ''صَدَقَ اللّٰہُ وَبَلَّغَ رَسُوْلُہ'' نہیں سنے، اِس بارے میں حضرت سے کون سوال کرے؟ تو طارق بن شہاب نے کہا کہ میں حضرت سے پوچھوںگا، چنانچہ جب حضرت ابن مسعود ص گھر سے باہر تشریف لائے تو طارق بن شہاب نے اِس بارے میں سوال کیا، اِس پر حضرت ابن مسعود ص نے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی یہ حدیث اِنہیں سنائی : اِنَّ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ تَسْلِیْمُ الْخَاصَّةِ وَفُشُوُّ التِّجَارَةَ حَتّٰی تُعِیْنَ الْمَرْأَةُ زَوْجَہَا عَلیَ التِّجَارَةِ ، وَقَطْعُ الأَرْحَامِ ، وَشَہَادَةُ الزُّوْرِ، وَکِتْمَانُ شَہَادَةِ الْحَقِّ ، وَظُہُوْرُ الْجَہْلِ ۔ (مسند احمد ٤٠٧١، النہایة فی الفتن والملاحم ١٨٥١)