ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
کہ حافظ ابن حجر کی یہ قید اپنی طرف سے ہے۔ اگر محمد بن یوسف سے مراد بیکندی ہوں تو اُن کی سفیان ثوری سے کوئی روایت نہیں ہے اور اگر فریابی مراد ہو ںتو اُن کی روایت سفیان بن عیینہ سے بھی ہے اور سفیان ِ ثوری سے بھی ہے۔ بلکہ سفیان ِ ثوری کے مخصوص تلامیذ میں سے ہیں۔ لیکن سفیان بن عیینہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ١٦٣ ھ سے مکے شریف میں مقیم ہوگئے تھے اُس کے بعد جو بھی حج یا عمرہ کے لیے مکہ گیا اُس نے ضرور اُن سے روایت کا سماع کیا۔ اِس سے پہلے بھی وہ ہرسال حج کے لیے جاتے تھے۔ زندگی میں ٧٠ حج کیے اِس لیے طُلَّابِ روایات اُن سے استفادہ کرتے تھے۔ امام شافعی نے بھی وہیں سماع کیا۔ میں نے اِس سلسلہ میں مزید چھان بین کے لیے رحلاتِ امام بخاری کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ کہ امام بخاری نے ٢١٠ میں پہلا سفر حرمین کا کیا دو سال وہاں رہے تاریخ ........ اُسی زمانے میں لکھی پھر ٢١٢ھ میں کوفے گئے۔ فریابی فریاب سے اُٹھ کر قیساریہ میں جو ساحل شام پر فلسطین کا ایک قصبہ تھا وہاں آباد ہوگئے تھے۔ چونکہ عمر زیادہ ہوگئی تھی اِس لیے آخر میں سفر سے رہ گئے تھے۔ یہی وجہ ہے امام احمد آخر میں اُن سے ملنے گئے حمص سے آھے بڑھے تو معلوم ہوا کہ اُن کی وفات ہوگئی امام احمد واپس حمص میں آگئے۔ محمد بن یوسف فریابی کی وفات ٢١٢ میں قیساریہ میں ہوئی۔ امام بخاری اِن کے وفات کے بعد قیساریہ گئے اُن کے ورثا سے اُن کے اَمالی لے آئے۔ مجھے صراحةً کہیں نہیں ملا کہ امام بخاری اُن سے ملے ہیں۔ صحاح خمسہ کے مصنفین محمد بن یوسف فریابی کی روایات امام احمد کے واسطے سے ذکر کرتے ہیں۔ کیونکہ محمد بن یوسف کی وفات کے وقت یہ سب بچے تھے لیکن امام بخاری اُن سے براہ ِ راست بھی روایت نقل کرتے ہیں۔ بہر حال چونکہ امام بخاری کے نزدیک لقاء ِراوی مرةً شرط ہے اور اِن روایات کا حاصل کرنا وِجادتاً ہے اِس لیے میں یہی خیال کرتا ہوں کہ اِس روایت ِ تزوج میں محمد بن یوسف سے مراد محمد بن یوسف بخاری بیکندی ہیں اور سفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں۔ اور ثوری روایت ِتزوج کے راوی نہیں ہیں۔ جن روایات میں سفیان بغیر قید کے آتا رہا میں اُس کے نیچے کے رُواة کو غور سے دیکھتا رہا۔ اس روایت عبداللہ بن عروہ میں سفیان بلا قید مذکور ہے۔ سند ہے :