ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
تا کہ روایت میں استحکام اور تعد د پیدا ہوجائے۔ چونکہ روایت اپنی اصلی سند سے معلوم ہوتی ہے اِس لیے اِس مضمون کو نئی سند سے قبول کرنے میں تردد نہیں ہوتا۔ ایک نئی سند سے مضمون سامنے آتا ہے۔ اور اِس خاص سندسے راوی کی انفرادیت ظاہر ہوتی ہے۔ نئی سند سے اِس روایت کے دریافت کرنے کا سہرا اُس کے سر ہوتا ہے۔ اور اِس روایت پر اُس کی اجارہ داری قائم ہوتی ہے۔ اور علمی دُنیا میں ایک نئی روایت کا معلوم سند سے اضافہ ہوجاتا ہے۔ علماء نقد ِرُواة کے اِس فعل کو وضع اَسانید سے تعبیر کرتے ہیں۔ ٢٣۔ علماء نقد نے اِسے راوی کا بہت بڑا عیب شمار کیا ہے جیسا کہ تہذیب کی نشان زدہ عبارات سے ظاہر ہے ۔ عبارات تہذیب التہذیب رقم ٦٠٤ محمد بن عمر الواقدی۔ ١۔ قَالَ زَکَرِیَّا بْنُ یَحْیَ السَّاجِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِیُّ قَاضِیْ بَغْدَادَ مُتَّہَم ....... اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلَ لَمْ یَزَلْ یُدَافِعُ اَمْرَ الْوَاقِدِیُّ حَتّٰی رَوٰی عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ نبھان عَنْ اُمِّ سَلِمَةَ حَدِیْث اَفَعَمْیَانَانِ اَنْتُمَا فَجَائَ بِشَیْئٍ لَاحِیْلَةَ فِیْہِ وَالْحَدِیْثُ حَدِیْثُ یُوْنُسَ لَمْ یَرْوِ غَیْرُہ۔ ٢۔ اِمَامُ اَحْمَدَ کَیْفَ تَسْتَحِلُّ اَنْ تَکْتُبَ عَنْ رَجُلٍ رَوٰی عَنْ مَعْمَرٍ حَدِیْثَ نبھان وَھٰذَا حَدِیْثُ یُوْنُسَ تَفَرَّدَ بِہ ٣۔ وَقَالَ الْبُخَارِیُّ الْوَاقِدِیُّ مَدَنِیّ سَکَنَ بَغْدَادَ مَتْرُوْکُ الْحَدِیْثِ تَرَکَہ اَحْمَدُ وَابْنُ الْمُبَارَکِ وَابْنُ نُمَیْرٍ کَذَّبَہ اَحْمَدُ وَقَالَ الْوَاقِدِیُّ کَذَّاب ۔ ٤۔ یَحْیَ بْنُ مُعِیْنٍ ''ضَعِیْف لَیْسَ بِشَیْئٍ'' ''کَانَ یُقَلِّبُ حَدِیْثَ یُوْنُسَ وَیُغَیِّرُہ عَنْ مَعْمَرٍ''۔ ٥۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ فِیْمَا اَسْنَدَہُ الْبَیْہَقِیُّ ''کُتُبُ الْوَاقِدِیِّ کُلُّہَا کِذْب''۔ ٦۔ قَالَ النَّسَائِیُّ فِی الضُّعَفَائِ '' اَلْکِذْبِیُّوْنَ الْمَعْرُوْفُوْنَ بِالْکَذِبِ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ اَرْبَعَة اَلْوَاقِدِیُّ بِالْمَدِیْنَةِ ''...... اِلٰی آخِرِہ ۔ قَالَ اَبُوْدَاودَ '' لَا اَکْتُبُ حَدِیْثَہ وَلَااُحَدِّثُ عَنْہُ مَا اَشُکُّ اَنَّہ کَانَ ےَفْتَعِلُ الْحَدِیْثَ''۔