ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
کے طلاق دینے کی وجہ سے اِس کو '' طلاقن'' کہا ہے تو اُس کے قول کا اِعتبار ہوگا۔ مسئلہ : کسی نے بجائے طلاق کے تلاک یا طلاک یا تلاغ یا طلاغ تلفظ کہا تو اِس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مسئلہ : کسی سے پوچھا گیا کہ کیا تونے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور وہ جواب میں کہے کہ ہاں یا کہے کیوں نہیں تو طلاق پڑگئی۔ مسئلہ : شوہر اگر یوں کہے کہ مجھ پر طلاق ہے تو اِس سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ مسئلہ : اگر یوں کہے تجھے لمبی چوڑی طلاق ہے یا تجھے غلیظ یا شدید طلاق ہے وغیرہ تو اِس سے طلاق ِ بائن واقع ہو تی ہے۔ البتہ اگر اِس طرح کہا تجھے یہاں سے مکہ تک طلاق تو طلاق ِ رجعی واقع ہوئی۔ مسئلہ : اگرکہا تجھے مکہ میں طلاق یا فلاں گھر میں طلاق تو فوری طلاق واقع ہوگی۔ مسئلہ : اگر کہا تجھے کل طلاق تو دُوسرے دِن طلوعِ فجر ہوتے ہی طلاق ہوجائے گی اور اگرکہا تجھے رمضان میں طلاق ہے اور کسی خاص دن کی نیت نہ ہو تو رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی طلاق پڑ جائے گی۔ مسئلہ : شوہر کا بیوی کو یہ کہنا''میں نے تجھ کو چھوڑ دیا '' اُردو میں طلاق کے لیے صریح ہے اور ایک دفعہ کہنے سے طلاق ِ رجعی پڑ جاتی ہے۔ مسئلہ : کسی غلطی پر اُردومیں اِس طرح بھی کہتے ہیں'' اِس دفعہ تو تمہیں چھوڑ دیاآئندہ ایسا کیا تو نہیں چھوڑیں گے'' یا صرف اِتنا کہنا کہ '' اِس دفعہ تو تمہیں چھوڑ دیا'' اِن سے طلاق نہیں ہوتی کیونکہ یہ الفاظ نہ تو طلاق میں صریح ہیں اور نہ ہی کنایہ ہیں۔ مسئلہ : شوہر کا بیوی کو یہ کہنا'' میں نے تجھے آزاد کردیا '' اُردو میں طلاق ِصریح ہے کیونکہ ہمارے علاقوں کے لوگ عورت کے لیے اِن الفاظ کا اِستعمال صرف طلاق میں کرتے ہیں۔ مسئلہ : شوہر کا بیوی کو یہ کہنا '' تو حرام ہے'' یا ''میں نے تجھ کو حرام کیا'' یہ طلاق ِ صریح بائن ہے اِس سے ایک طلاق ِ بائن بلانیت واقع ہوجاتی ہے۔(جاری ہے) ض ض ض