ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
راتیں سال کے ایام میں افضل ہیں۔ امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث سے ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کا تمام دنوں میں افضل ہونا معلوم ہوا اور اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی یہی دس راتیں ذی الحجہ کی مقرر کی گئی تھیں۔ تیسری اور چوتھی چیز جس کی قسم کھائی گئی ہے '' وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرٍ'' ہے ۔'' شفع'' کے لغوی معنی جوڑ کے ہیں جس کو اُردو میں جفت کہتے ہیں اور ''وتر ''کے معنی طاق اور فرد کے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں یہ متعین نہیں کہ اس جفت اور طاق سے کیا مراد ہے اِس لیے ائمۂ تفسیر کے اقوال اِس میں بے شمار ہیں مگر خود مرفوع حدیث جو ابوزُبیر نے حضرت جابر سے روایت کی ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں : (وَالْفَجْرِ o وَلَیَالٍ عَشْرٍ) قَالَ ھُوَ الصُّبْحُ وَعَشْرُ النَّحْرِ وَالْوَتْرُ یَوْمُ عَرَفَةَ وَالشَّفْعُ یَوْمُ النَّحْرِ ۔ ( قرطبی ج ٢٠ ص ٣٩) '' یعنی رسول اللہ ۖ نے وَالْفَجْرِ o وَلَیَالٍ عَشْرٍکے متعلق فرمایا کہ'' فجر'' سے مراد'' صبح'' اور'' عشر ''سے مراد'' عشرہ نحر ''ہے (اور یہ عشرہ ذی الحجہ کا پہلا ہی عشرہ ہوسکتا ہے جس میں یومِ نحر یعنی١٠ ذی الحجہ شامل ہے) اور فرمایا کہ'' وتر'' سے مراد عرفہ کا دن اور'' شفع'' سے مراد یومِ نحر (دسویں ذی الحجہ) ہے۔'' امام قرطبی رحمہ اللہ نے اِس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ یہ اسناد کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے بہ نسبت دُوسری حدیث کے (معارف القرآن بتغیر)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ '' مَا مِنْ اَیَّامٍ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھَا اَحَبُّ اِلَی اللّٰہ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ'' یَعْنِیْ اَیَّامَ الْعَشْرِ، قَالَ قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَاالْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ: ''وَلَاالْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِلَّا رَجُلًا خَرَجَ بِنَفْسِہ وَمَالِہ، ثُمَّ لَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذٰلِکَ بِشَیْئٍ'' (صحیح بخاری ، ابودود ، ترمذی ، ابن ماجہ ، دارمی و مسند احمد ، الترغیب والترہیب ج ٢ ص ١٢٧) ''حضرت عبد اللہ بن عباسسے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا: