ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
آرچ بشپ ڈاکٹر ولیم کے ریمارکس سے برطانیہ میں مسلمانوں کو شریعت کے حوالے سے شریعت کا صحیح مؤقف پیش کرنے کا سُنہرا موقع ہاتھ آیا تھا مگر مسلمان اِس سے فائدہ نہیں اُٹھاسکے اِس کے برخلاف اِسلام دُشمن (صیہونی نیوکون) طاقتوں نے میڈیا کے ذریعہ اِسلام کا ھوّا کھڑا کرکے اقوام یورپ کو ڈرادیا حتّٰی کہ وضاحت کے بہانے ڈاکٹر روون ولیمز کو بھی ایک حد تک پسپائی اختیار کرنی پڑی لیکن اِس بحث سے مثبت نتائج بھی نکلیں گے چنانچہ ٢٨ فروری برطانیہ کے دو روزناموں فنانشل ٹائمز اور ٹیلی گراف نے خبردی ہے کہ حکومت سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ برطانیہ میں بسنے والے مسلم علماء کو اِسلامی قانون اور شریعت کی باقاعدہ ٹریننگ دی جائے۔ اِس سلسلے میں برطانیہ کی اسلام دُشمن اور اسلام کے متعلق سخت گیر پالیسیوں کے حامی قوتوں کی پوری کوشش ہوگی کہ شریعت لاء کی تعبیر و تشریح مغربی نکتۂ نظر کے مطابق یا دُوسرے الفاظ میں مغربی اقدار و سسٹم کو کسوٹی بنا کر کی جائے لیکن قدرت نے ہمارے لیے بھی بہت سے موقع پیدا کر دیے ہیں کہ ہم اسلام و شریعت کے انسانی سوسائٹی کے متعلق فلاح و بہبود اور فائدہ مند پہلوؤں کوسامنے لائیں جن میں ایک یہ ہے کہ اِسلام نے اُس دَور میں جب ایک مذہب و تمدن کے لوگوں کے درمیان دُوسرے مذہب کا زندہ رہنا مشکل تھا دُوسرے مذاہب شرائع کو اپنے اپنے مذہبی قوانین کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اُن پر عمل پیرا ہونے کی مکمل ضمانت دی۔ پیغمبر اسلام نے میثاق مدینہ میں یہودیوں اور مدینہ و اطراف کے غیر مسلم بت پرست قبائل کو پوری آزادی کے ساتھ اُن کے قوانین پر چلنے کی آزادی و تحفظ فراہم کیا۔ آج بھی مصر کے قبطی کرسچین ہوں یا عرب دُنیا کے یہودی سب آزادی سے اپنے قانون و شرائع پر عمل پیرا ہیں، اگر یہی حق اکیسویں صدی میں مغرب میں بسنے والی مختلف مذاہب کی کمیونٹیز کو مل جاتا ہے تو اِس سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا نہ یہاں کے عدالتی سسٹم و قانون کے لیے کوئی خطرہ یا مسئلہ پیدا ہوگا بلکہ ملک میں بسنے والی تمام کمیونٹیز میں باہمی ہم آہنگی اور قربت کا ذریعہ بنے گا۔ جب آرچ بشپ کے ذریعہ برطانوی میڈیا میں یہ بحث چھڑگئی ہے تو ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ بحث کو مثبت رنگ دیں اور شریعت کے انسانیت و معاشرہ کے لیے نفع بخش پہلوؤں کو سامنے لائیں خاص طور پر اِس غلط فہمی کا ازالہ کریں کہ شریعت صرف چور کا ہاتھ کاٹنے یا زانی کے سنگسار کرنے کا نام نہیں ہے حدود و قصاص کا نفاذ اِسلام میں معاشرہ کی مکمل اصلاح اور معاشرہ کے مکمل طور پر آخری آسمانی تعلیمات پر استوار ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔