ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
قوانین (بشمول کرسچین کے مذہبی عقائد) شہنشاہوں اور طاقتور حکمرانوں کی مرضی کے مطابق مرتب ہوئے حتّٰی کہ نیقہ کی کونسلوں کے گہرے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کرسچینٹی کے بنیادی مذہبی عقائد تک تمام قوانین و فیصلے رومن شہنشاہ کی مرضی سے بنتے رہے نہ کہ کونسلوں کے اَراکین (جو صرف مذہبی پادری ہوتے تھے) کی آراء سے۔ دُنیا کے تمام قوانین و دساتیر کی تاریخ یہی ہے کہ پہلے ریاست قائم ہوئی پھر اس نے اپنی طاقت سے قانون بناکر نافذ کیا مگر اِسلام ہی پہلے قانون بنا پھر اِس کے مطابق ریاست قائم ہوئی اسلام میں بھی ریاست کا جواز صرف اُس وقت تک ہے جب تک وہ قانون شریعت کی حفاظت و نفاذ کرے ورنہ وہ ایک قانونی جواز کھو بیٹھتی ہے۔ آج دُنیا کا ایک بڑا مسئلہ جرائم کی بہتات و کثرت ہے ۔ہر سال کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ قتل، چوری ڈکیتی، زنا بالجبر سمیت تمام جرائم دن بدن بڑھتے جارہے ہیں اِنہیں ختم کرنے بلکہ کم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہے دُنیا کی سب سے ترقی یافتہ و متمدن کہلانے والی قوم امریکہ جن پر روز بلکہ ہر گھنٹہ کے جرائم کی ہوش رُبا اعداد و شمار اِس بات کی دلیل ہیں کہ مغربی قوانین جرائم کی روک تھام میں بالکل ناکام ہوچکے ہیں۔ مغرب کے ہر ملک میں جتنی جیلیں تعمیر ہوتی ہیں ناکافی ہوجاتی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے مغربی تہذیب میں سب سے زیادہ حقوق مجرموں اور قاتلوں کے ہیں۔ امریکہ میں ایک شخص سو کے قریب معصوم بچوں کو اغوا کرکے اُن سے بدفعلی و بدکاری کرکے بے دردی سے قتل کرتا ہے جب پکڑا جاتا ہے تو امریکہ کے بہت سے نامور وکیل اِنسانی ہمدردی میں اِسے پھانسی سے بچانے کے لیے میدان میں آجاتے ہیں جبکہ یہ معلوم تاریخی حقیقت ہے کہ اِسلام کا قانون و شریعت جرائم کو جڑ سے اُکھاڑکر ناپید کردیتے ہیں۔ چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی اسلامی قانون و شریعت سے کسی ملک و قوم نے فائدہ اُٹھایا تو سوسائٹی کو جرائم سے پاک کرنے میں مدد ملی۔ آج سعودی عرب میں اِسلامی قانون و شریعت کے صرف ایک چھوٹے سے حصہ (حدود و قصاص) کے نفاذ کی وجہ سے وہاں جرائم کی تعداد دُنیا میں سب سے کم ہے۔ کیا یہ بات اَقوامِ عالَم اور مغرب سمیت ہر متمدن معاشرہ سے غور و فکر کا تقاضہ نہیں کرتی۔ گلوبل ولیج کا بنیادی تقاضہ ہے کہ رنگ و نسل قومیت و طبقہ کی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر کھلے دل سے دُنیا کے تمام قوانین، شرائع، دساتیر کا جائزہ لیا جائے۔ مطمع نظر صرف جرائم کا خاتمہ اور اِنسانی بہبود ہو نہ کہ کسی خاص تمدن و آئین کا تسلط ۔