ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
علی رضی اللہ عنہ کو موجود نہ پایا۔ صاحبزادی سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ عرض کیا کہ ہمارے آپس میں کچھ رنجش ہوگئی تھی لہٰذا وہ غصّہ ہوکر چلے گئے اور میرے پاس قیلولہ نہ کیا ۔ایک صاحب سے آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ دیکھنا وہ کہاں ہیں؟ اُنہوں نے جاکر تلاش کیا اور واپس آ کر عرض کیا کہ وہ مسجد میں سورہے ہیں۔ آنحضرت ۖ مسجد میں تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے (سورہے) ہیں اور اُن کے پہلو سے چادر گرگئی ہے جس کی وجہ سے اُن کے جسم کو مٹی لگ گئی ہے۔ آنحضرت ۖ مٹی پونچھنے لگے اور فرمایا قُمْ اَبَا تُرَابٍ قُمْ اَبَا تُرَابٍ) اَو مٹی والے اُٹھ اَو مٹی والے اُٹھ۔ (بخاری شریف) صاحب ِ فتح الباری نے اِس حدیث سے کئی مسئلے ثابت کیے ہیں مثلاً (١) جو غصّہ میں ہو اُس سے ایسا مذاق کرنا جس سے اُس کو مانوس کیا جاسکے درُست ہے۔ (٢) اپنے داماد کی دلداری اور ناراضگی دُور کرنا بہتر عمل ہے۔ (٣) باپ اپنی بیٹی کے گھر میں بغیر داماد کی اجازت کے داخل ہوسکتا ہے جبکہ یہ معلوم ہو کہ اُس کو گرانی نہ ہوگی۔ ( فتح الباری ) ایک مرتبہ حضرت سیّد ِ عالَم ۖ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے۔ وہاں پہنچ کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال فرمانے لگے کہ کیا یہاں چھوٹوا ہے؟ کیا یہاں چھوٹوا ہے؟ اِتنے میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپہنچے حتّٰی کہ دونوں ایک دُوسرے سے گلے لپٹ گئے۔ اُس وقت آنحضرت ۖ نے دُعا کی کہ اے اللہ ! میں اِس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اِس سے محبت فرما اور جو اِس سے محبت کرے اُس سے بھی محبت فرما۔ ( مشکٰوة) یہ اُس وقت کی بات ہے جبکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ چھوٹے سے تھے۔ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہم روایت فرماتے ہیں کہ ہمارے (بچپن کے زمانہ میں) رسول اللہ ۖ مجھ کو اپنی ران پر بٹھاتے تھے اور دُوسری ران پر حسن بن علی رضی اللہ عنہم کو بٹھالیتے تھے اور دونوں کو چمٹالیتے تھے اور یوں دُعاء فرماتے تھے اَللّٰہُمَّ ارْحَمْہُمَا فَاِنِّیْ اَرْحَمُہُمَا ( بخاری شریف) اے اللہ اِن پر رحم فرما کیونکہ میں اِن پر رحم کرتا ہوں۔ بعض مرتبہ آنحضرت ۖ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے کہ میرے بیٹوں (یعنی حضراتِ حسنین) کو لاؤ۔ پھر آپ ۖ اُن کو سونگھتے اور (سینہ سے) چمٹاتے تھے۔( ترمذی شریف)