ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2008 |
اكستان |
مسلمانوں نے تاریخ کی بہت محدودتشریح کی ہے جس کی وجہ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹرمینہ ودُودحدودکی سزاؤں کی مخالفت کرتی ہیں اوراِس بارے میں اُن کاکہناہے کہ ہاتھ کاٹنے کی سزایابیوی کو مارنے کی اجازت دیناصحیح نہیں ہے، اسلام ہی اِنہیں یہ سکھاتاہے کہ ایسی روایات جواِسلام کی ابتداء میں ایک خاص تاریخی اورثقافتی پس منظرمیں اُس کاحصہ بنائی گئی تھیں اَب تبدیل کردینی چاہئیں۔ یہ قرآن ہے جومجھے راستہ دکھاتاہے کہ اِنکار کیسے کیاجائے؟ 18مارچ 2005ء کونیویارک میں مردوخواتین کی مخلوط نمازِجمعہ کی امامت کے پہلے اورخطبہ جمعہ کے بعدڈاکٹرمینہ ودُودنے خطبہ کی کتاب اپنے پاؤں پررکھ دی اورپھرامامت کرائی ،آذان دینے والی عرب لڑکی سہیلہ نے بھی دیگرمردوخواتین کی طرح پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی جبکہ اُس اجتماع کے منتظم اوراصل خالق اسراء نعمانی بھی دوپٹہ اَوڑھے بغیرپہن شرٹ میں ملبوس تھی۔ اِن خیالات اورعملی اقدامات سے ڈاکٹرمینہ ودُودکی جو شخصیت سامنے آئی ہے وہ انتہائی لبرل سوچ رکھنے والی خاتون کی ہے جومذہب اسلام کی اقدار کو تبدیل کرکے اسے اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرناچاہتی ہے۔ اِس منصوبے کی اصل خالق اسراء نعمانی کاتعلق پاک وہندکے ایک مذہبی گھرانے سے ہے، علامہ شبلی نعمانی مسلمانوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں پاکستان اورہندوستان میں اُن کے بیشمار معتقد موجود ہیں۔ اسراء نعمانی دراصل مولاناشبلی نعمانی کی نواسی ہیں۔ مولاناشبلی جیسے بڑے عالمِ دین جن کی خدمات کاایک زمانہ معترف ہواُن کی نواسی اسلامی اقداربدلنے کی کوشش کرتے ہوئے نمازجمعہ کی امامت کرائے اوریہ مطالبہ کرے کہ عورت کومرکزی دروازے سے مسجدمیں داخلے کی اجازت اورمردوں کے ساتھ پہلی صف میں بیٹھنے دیاجائے، اِس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی بیان دے کہ گلے ملنے میں کوئی ممانعت نہیں جیساکہ میرابھائی مجھے ملتا ہے تویہ تضادبڑاعجیب لگتاہے۔ اسراء نعمانی ممبئی کے ایک سکول ٹیچرمحمدظفرعالم نعمانی کے گھر میں پیداہوئیں چارسال کی عمرمیں اُس کے والد اُسے لے کر ا مر یکا آ گئے اوروہاں اِنہوں نے ورجینیامیں رہائش رکھی۔ ظفرعالم نعمانی نے رٹیگرزیونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اورڈیوس کالج آف ایگری کلچرمیں طویل عرصے تک پڑھاتے رہے۔ اسراء نعمانی کی ساری تربیت امریکاکے انتہائی اَلٹراماڈرن ماحول میں ہوئی تعلیم کی ساری منازل اُس نے یہیں طے کیں۔ اسراء کاخاندانی پس منظرکیونکہ مضبوط تھااِس لیے اُسے تعلقات بنانے